دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
وَالمَقبُولۃِ وَالمَظنونَۃِ، أوْ إِحداھَا -ترْغیباً أوْ ترْھیْباً أوْکلاھمَا- مُصدَّراً بالحَمدِ وَالصَّلاۃِ معَ کونِ مُخاطبِہِ غیرَ مُعیَّنٍ۔ یُقالُ: سَمِعْنَا خُطبَۃَ الجُمُعَۃِ وَالعِیدَینِ۔ وَتُطلَقُ عَلیٰ خِطابِ الوَعْظِ أیْضاً۔ (دستور العلماء ۲/ ۶۰ ب) خطبہ: بہ غرضِ ترغیب وترہیب وہ عام غیرمنظوم کلام ہے جس کی ابتداء حمد و صلاۃ سے ہو، اور مقدمات یقینیہ ،مقبولہ اور مظنونہ پر مشتمل ہو، یا اُس میں صرف ایک قِسم کے مقدمات پر مشتمل ہو، جیسے کہا جاتا ہے: ہم نے نمازِ جمعہ وعیدین کی وعظ ونصیحت سنی۔(مقدمات یقینیہ کو باب المیم کے تحت ’’مقدمات‘‘ کے ضمن میں اور مظنونہ ومقبولہ کو باب المیم کے تحت ’’مظنونات‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔) ملاحظہ: کبھی خطبے کا اطلاق وعظ و نصیحت پر بھی کیا جاتا ہے۔ خطبۃُ الکتابِ: اعلمْ أنّ خُطبۃَ الکتبِ إنْ ألحِقتْ بہا بعدَ تَصنیفِہا وَتألیْفِہا، بأنْ ألَّفَ المُؤَلِّفُ کتابَہ أوَّلاً، ثمَّ ألحَقہُ الخُطبۃَ تُسمّٰی خُطبۃً إلحاقیَّۃً؛ وإنْ کتَبَ أوَّلاً ثمَّ ألفَ الکتابَ تُسمَّی خُطبَۃً ابتِدائیَّۃً۔(کشاف اصطلاحات الفنون۲/۹) خطبۂ ابتدائیہ، الحاقیہ: معلو م ہونا چاہیے کہ،اگر کتاب کے خطبہ کو تصنیف وتالیف کے بعد لاحق کیا گیا ہو، بہ ایں طور پرکہ مؤلف اوّلاً کتاب کو تصنیف کرلے، پھر خطبہ کو اصل مضمون سے ملادے (شامل کردے ) تو اُس کو خطبۂ الحاقیہ کہتے ہیں ، اور اگر اوّلاً خطبہ تحریر کیا پھر کتاب کو تصنیف کیا ہو تو اُس کو خطبۂ ابتدائیہ کہتے ہیں ۔ خطبۃُ الدفاترِ: عِبارۃٌ عنْ کلامٍ مُشتمِلٍ عَلَی البَسمَلۃِ، وَالحَمدَلۃِ وَالثَّنائِ عَلَی اللّٰہِ تَعالیٰ بمَا ھُوَ أھلُہُ، والصَّلاۃِ عَلَی النَّبِيِّا،