دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
بعض افراد میں ہی پائی جاتی ہے، ( جیسے: متعدی ہونا بابِ اِفعال کی خاصیت ہے؛ مگر یہی باب کبھی لازم بھی ہوتا ہے، جیسے:أَحمدَ الشيئُ:قابل تعریف ہونا) (۱)۔ الخطُّ: باب النون کے تحت ’’نقطہ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الخطأ: ھُوَ الذَّنبُ الَّذِي لَیْسَ لِلإِنسَانِ فِیہِ قَصدٌ، وَضِدُّہُ الصَّوَابُ۔ (التعریفات الفقہیۃ:۸۷) (۲) خطاء: وہ قصور ہے جس میں انسان کا قصد و ارادہ نہ ہو، اِس کی ضد صواب (درستگی) ہے۔ الصَّوابُ: لغۃً السَّدادُ، واصطلاحاً: الأمرُ الثَّابتُ الذي لایسوغُ إنکارُہُ۔ وقیل: الصَّوابُ: إصابۃُ الحقِّ۔ (التعریفات الفقہیّۃ:۱۳۱) صواب: لغوی معنیٰ: درستگی۔ اصطلاحی معنیٰ: وہ پختہ معاملہ جس میں انکار کی گنجائش نہ ہو۔ اور بہ قول بعض:درستگی کو پہنچنا۔ الخُطبَۃُ: کلامٌ مَنثورٌ مُؤَلَّفٌ منَ المُقدَّمَاتِ الیَقینِیَّۃِ (۱) حد: کسی چیز کی ماہیت پر دلالت کرنے والا قول، تعریف۔ خاصۃ الشیٔ: خاصیت، مخصوص صفت جو دوسرے سے ممتاز بنائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ، تعریف کے اندر جامع الأفراد اور مانع عن دخول الغیر ہونا شرط ہے، اور خاصہ کے اندر بجمیع أفراد المختص بہ ہونا شرط نہیں ؛ بلکہ صرف ولا یُوجدُ في غیرِہ ہونا شرط ہے۔ (۲) ملحوظۃ: الصَّواب وَالخَطأ یُستَعمَلان فيْ المُجتَھَدات، والحَقُّ والبَاطِل یُستَعْمَلان فيْ المُعْتَقَدات؛ حتّٰی إذا سُئلنَا فيْ مَذھَبِنا ومَذھَب مَنْ خالَفَنا فيْ ’’الفُرُوْع‘‘، یَجِب عَلیْنا أنْ نُجِیب: بأنَّ مَذھَبَنا صَواب یَحتَمِل الخَطأَ، ومَذھَبُ مَن خالَفَنا خَطأٌ یَحتَمِل الصَّوَاب؛ وإذَا سُئِلْنا عَن مُعتَقَدنا ومُعْتَقد مَن خالفَنَا فيْ ’’المُعْتَقَدات‘‘، یَجِب عَلیْنَا أنْ نَقُوْل: الحَقُّ مَا عَلیہٖ نَحْنُ، وَالبَاطِل مَا عَلیْہ خُصُوْمُنا۔ (کتاب التعریفات:۹۶)