دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
سے ہے، اور اُس قیدِ حیثیت یعنی أنہ کاتب کے عِلاوہ سے قطع نظر ہے، (جیسے: الإنسانُ -منْ حیثُ أنَّہُ کاتبٌ- مُتحرِّکُ الأصابِع، کہ اِس مثال میں محیَّث معَ الحَیثیت یعنی:الإنسانُ معَ الکتابۃِ پرتحریکِ اصابع کا حکم لگایا ہے، اور عدمِ کتابت کی صورت سے قطع نظر ہے(۱)۔ اِس کی مثال جس سے دونوں حیثیتوں کا فرق واضح ہوتا ہے، یہ ہے کہ: شریعت کے احکام دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کا ہے، {إنِ الحُکْمُ إِلاَّ لِلّٰہ} گویا یہ اختیار اللہ کے رسولوں کو بھی حاصل نہیں ، پھر ائمۂ اربعہ کی تقلید کا کیا مطلب؟ اس کا جواب یہ ہے کہ: تقلیدِ امام من حیث ہو ہو (یعنی من حیث أنہ إمام) نہیں کی جاتی؛ بلکہ من حیث أنہ نائب عن الشریعۃ کی جاتی ہے، اور بہ ایں حیثیت رسول اللہ ا کی بھی تقلید کی جاتی ہے۔ الحاصل! ممانَعت حیثیتِ اطلاقیہ کے اعتبار سے ہے، جب کہ یہی تقلید بہ حیثیتِ تقییدیہ مامور بہٖ ہے۔ من حیثُ: إنَّ قَولکَ منْ حیثُ کذَا، یُرادُ بہِ بَیانُ الإطلاقِ وَأنہُ لاَقیدَ ھُناکَ، کمَا فِيْ قَولِکَ: الإنسانُ منْ حیثُ ھوَ۔ وقَدْ یُرادُ بہِ التَّقیِیدُ، کمَا فيْ قولکَ: النَّارُ منْ حَیثُ أنَّھَا حارَّۃٌ تُسَخِّنُ۔ (دستور العلماء۳/۲۳۴ب) من حیث: اِس سے مراد کبھی تو ’’اطلاق‘‘ ہوتا ہے، یعنی یہاں پر کوئی قید نہیں ہے، جیسے: الإنسانُ مِن حیثُ ھُو، (اِسے ’’حیثیتِ اطلاقیہ‘‘ کہا جاتا ہے)۔ (۱)حیثیتِ تعلیلیہ: وہ حیثیت ہے جو محیث پر لگائے ہوئے حکم کی علت بیان کرے، جیسے: زید مکرمٌ من حیث إنہ عالم اس مثاک میں تکریمِ زید کا حکم بہ حیثیتِ علم ہے؛ کیوں کہ فقدانِ علم کی صورت میں یہ حکم نہیں تھا۔