دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
کے متضاد ہونا ، جیسے: زید، عمرو کی ضمناً نقیض ہے۔ اور متناقضین میں سے ہر ایک کو دوسرے کی نقیض (ضد، بر عکس) کہا جاتا ہے۔ ملاحظہ:اعلم!إن التناقض الحقیقي ما ہو بین القضایا، وإطلاقہ علیٰ ما ہو في المفردات علیٰ سبیل المجاز۔(محشیٔ شرح تہذیب: إسماعیل) تَناقُضُ القَضایا: ہوَاختلافُ القضیتَینِ بالإیجابِ والسَّلبِ بحیثُ یقتضيْ لذاتہِ صدقُ إحدَاہما کذْبَ الأخرَی، کقَو لنا: زیدٌ إنسانٌ، زیدٌ لیسَ بإنسانٍ۔ (کتاب التعریفات:۴۹ب) تناقضِ قضایا: دوقضیوں کا آپس میں ایجاب وسلب کے اعتبار سے اِس طرح مختلف ہونا کہ، اُن دونوں میں سے کسی بھی ایک کا سچا ہونا (سچا ماننا) دوسرے کے جھوٹا ہونے کا تقاضہ کرے، جیسے: زید انسان ہے، زید انسان نہیں ہے۔ ملحوظہ: مذکورہ تناقض کے پائے جانے کے لیے وحدات ثمانیہ کاہونا شرط ہے۔ تفصیل کتبِ منطق میں ملاحظہ فرمائیں ۔ النَّقِیْضُ: نقیضُ کلِّ شيئٍ رفعُہُ۔ نقیض: (برعکس، ضد) ہر شئی کے سلب کو نقیض کہتے ہیں ، (جیسے: جاندار کی نقیض غیر جاندار، ’’زید عالم ہے‘‘ کی نقیض ’’زید عالم نہیں ہے‘‘)۔ التَّنْبِیْہُ: إِعلامُ مَا فيْ ضَمیرِ المُتکلِّمِ للمُخاطَبِ۔ وَیُطلقُ أَیضاً عَلَی اِستِحضارِ ما سَبقَ، وَاِنتِظارِ مَا سَیأتيْ۔ (دستور العلماء۱/۲۳۹؛ التعریفات الفقہییہ:۶۳) (۱)متکلم کا مخاطب کو اپنے باطن سے آگاہ کرنا۔ (۲)مضامینِ گذشتہ کا