Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

50 - 50
صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو
دینی مدارس میں ششماہی امتحانات کے بعد عام طور پر دورۂ حدیث کے اسباق کے دوران ’’وبہ قال حدثنا‘‘ کا ورد جاری رہتا ہے لیکن جب تاریخی، سیاسی یا سماجی حوالہ سے کوئی اہم روایت سامنے آجائے تو کچھ کہے بغیر آگے گزر جانا میرے لیے مشکل ہوتا ہے۔ گزشتہ روز بخاری شریف کی کتاب الشروط میں صلح حدیبیہ کے بارے میں عبارت پڑھنے والے طالب علم نے ایک طویل روایت پڑھی تو میں نے وہاں بریک لگا دی اور دو دن کا سبق اسی روایت کی وضاحت میں گزر گیا۔ حدیبیہ کے مذاکرات اور معاہدہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی فراست، سفارت کاری اور ڈپلومیسی کا شاہکار ہے جس کا صحیح معنوں میں حظ اس کا ذوق رکھنے والے حضرات ہی اٹھا سکتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ اس کے تین چار پہلوؤں کا قارئین کے سامنے بھی تذکرہ ہو جائے۔
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ رفقاء کو حدیبیہ کے مقام پر روک دیا گیا اور یہ بات سامنے آگئی کہ قریش مکہ جناب رسول اللہؐ اور ان کے ساتھیوں کو عمرہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے تو آنحضرتؐ نے وہاں رک کر اس صورتحال کا جائزہ لیا اور اپنی آئندہ حکمت عملی طے فرمائی۔ قبیلہ بنو خزاعہ کے ساتھ نبی کریمؐ کے اچھے تعلقات تھے وہ مسلمانوں کے بارے میں دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے، ان کے سردار بدیل بن ورقاء خزاعی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ حضورؐ سے ملاقات کے لیے آئے تو آپؐ نے ان کے ذریعے قریش مکہ کو ایک پیغام بھجوایا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مسلسل جنگوں نے قریش کو کمزور کر دیا ہے اور اب وہ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، البتہ میں ان کے لیے یہ پیشکش کر رہا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ ایک معینہ مدت کے لیے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر لیں اور دیگر عرب قبائل اور عوام کے ساتھ میرے روابط میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اگر میں قریش کے علاوہ باقی قبائل اور لوگوں کو ساتھ ملانے اور غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو قریش کے لیے دونوں راستے کھلے ہوں گے کہ یا باقی لوگوں کے ساتھ وہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں یا اگر چاہیں تو اپنی موجودہ پوزیشن پر قائم رہیں۔ لیکن اگر وہ اس پیشکش کو قبول نہیں کرتے تو میری ان کے ساتھ آخری دم تک جنگ جاری رہے گی اور اللہ تعالیٰ دین حق کے غلبہ کے بارے میں اپنا فیصلہ نافذ کر کے رہیں گے۔
صلح حدیبیہ کے بعد نبی اکرمؐ کو پورے جزیرۃ العرب میں اپنی دعوت کا دائرہ وسیع کرنے کا جو موقع ملا اور جس میں عرب قبائل عمومی طور پر اسلام کی طرف مائل ہونا شروع ہوگئے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کے فوائد میں ایک اہم فائدہ تھا جو مسلمانوں کو حاصل ہوا۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ دراصل جناب رسول اللہؐ کے مقاصد میں سے تھا کیونکہ قریش کو جنگ نہ کرنے کے معاہدہ کی پیشکش آنحضرتؐ نے خود کی تھی اور آپؐ چاہتے تھے کہ قریش کے ساتھ حالت جنگ کچھ دیر کے لیے ختم ہو جائے تاکہ باقی دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی جدوجہد کو کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھایا جا سکے۔ یہیں سے اس بات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس صلح میں بظاہر کمزور شرائط کو حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے اضطراب اور بے چینی کے باوجود اس لیے قبول کیا گیا تھا کہ آپؐ کے سامنے اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے پر امن ماحول اور فضا قائم کرنا ضروری تھا جس کے لیے یہ صورتحال برداشت کی گئی۔
قریش کے ساتھ اس بات چیت کے لیے نبی کریمؐ کے پاس گفت و شنید کے لیےپانچ الگ الگ نمائندے بدیل بن ورقاء، عروۃ بن مسعود ثقفی، رجل من کنانہ، مکرز بن حفص اور سہیل بن عمروؓ باری باری آئے تھے۔ بخاری شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ آنحضرتؐ کا طرز عمل مختلف تھا۔ مثلاً ایک نمائندے کا تذکرہ ’’رجل من کنانہ‘‘ کے طور پر کیا گیا ہے جن کا نام مذکور نہیں ہے مگر بتایا گیا ہے کہ یہ صاحب قریش کی طرف سے باقاعدہ نمائندہ بن کر اور ان سے اجازت لے کر مذاکرات کے لیے آئے تھے۔ آنحضرتؐ نے دیکھتے ہی پہچان لیا اور ساتھیوں سے کہا کہ یہ فلاں شخص ہے اور ان کے ہاں ہدی کے جانوروں کا بڑا احترام پایا جاتا ہے اس لیے اس کے آنے سے پہلے ہدی کے جانوروں کو صف میں کھڑا کر دو۔ ان صاحب نے آ کر جب ہدی کا جانوروں کی قطاریں دیکھیں اور صحابہ کرامؓ کو تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا تو وہیں رک گئے اور کہا کہ یہ حضرات تو عمرہ کے لیے آئے ہیں اور قربانی کے جانور بھی ساتھ لائے ہیں اس لیے میں انہیں بیت اللہ تک پہنچنے سے روکنے کے حق میں نہیں ہوں، یہ کہہ کر وہ واپس چلے گئے اور اپنے لوگوں کو جا کر بتایا کہ میں ان لوگوں کو عمرہ کی ادائیگی سے روکنے کی کاروائی میں شریک نہیں ہوں۔ اس کے بعد مذاکرات کے لیے مکرز بن حفص نامی صاحب آئے تو آپؐ نے بتایا کہ یہ فاجر آدمی ہے، مطلب یہ کہ اس کے ساتھ گفتگو بڑی احتیاط سے کرنا ہوگی۔ لیکن وہ ابھی گفتگو کا آغاز نہیں کر پائے تھے کہ ادھر سے قریش کے آخری نمائندے سہیل بن عمروؓ آگئے جن کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ اب معاملہ آسان ہو جائے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ان کے ذریعے معاہدہ طے پا گیا۔ جناب رسول اللہؐ کے طرز عمل سے ایک بات تو یہ سمجھ آتی ہے کہ ہر شخص اور ہر قوم سے ایک ہی انداز و لہجے میں بات کرنا مناسب نہیں ہوتا بلکہ مختلف قوموں اور طبقات کے مزاج، نفسیات اور اخلاق و عادات کا لحاظ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دشمن افراد کو ہمیشہ مغلوب کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ ان کے رجحانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنے حق میں رائے دینے پر آمادہ کرنا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
اس معاہدہ میں یہ طے پایا تھا کہ قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو اسے واپس قریش کے حوالہ کرنا ہوگا لیکن کوئی مسلمان اگر مکہ مکرمہ واپس آگیا تو قریش اسے واپس کرنے کے پابند نہیں ہوں گے۔ اس شرط پر صحابہ کرامؓ کی صفوں میں بے چینی اور خاص طور پر حضرت عمرؓ کا اضطراب سب کو دکھائی دے رہا تھا مگر آنحضرتؐ نے نہ معاہدہ میں صرف یہ شرط قبول کی بلکہ اس کی پوری پاسداری کی۔ چنانچہ بعد میں جب حضرت ابوبصیرؒ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے تو قریش نے ان کی واپسی کے لیے دو نمائندے مدینہ منورہ بھیجے۔ آنحضرتؐ نے حضرت ابوبصیرؓ کو معاہدہ کے مطابق ان کے ساتھ واپس مکہ مکرمہ بھجوا دیا مگر حضرت ابوبصیرؓ ان میں سے ایک کو راستہ میں قتل کر کے مدینہ منورہ واپس جا پہنچے اور حضورؐ سے عرض کیا کہ آپؐ نے تو اپنی ذمہ داری پوری کر دی تھی مگر میں واپس آگیا ہوں۔ اس پر آنحضرتؐ نے ان کے بارے میں یہ جملہ فرمایا کہ ’’ویل امہ مسعر حرب‘‘ کہ اس کی ماں کی ہلاکت ہو یہ لڑائی کی آگ بھڑکائے گا، یعنی قریش کے ساتھ جنگ کا وہ ماحول جو ہم نے بڑی مشکل سے ختم کرایا ہے وہ اسے واپس لے آئے گا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ کیا اس کو کوئی سنبھالنے والا ہے؟ یہ سن کر حضرت ابوبصیرؓ چپکے سے واپس چلے گئے اور مکہ مکرمہ لوٹنے کی بجائے سمندر کے کنارے ڈیرہ لگا لیا جو اس طرح کے نئے مسلمانوں کے لیے ایک حفاظتی کیمپ بن گیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب دشمن کے ساتھ کوئی معاہدہ طے پا جائے تو وہ معاہدہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اپنے کسی ساتھی کو اس میں رخنہ اندازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی ایسی کسی کاروائی کی ذمہ داری قبول کی جا سکتی ہے۔
جب اس معاہدہ کی رو سے جناب رسول اللہؐ نے مکہ مکرمہ سے مسلمان ہو کر آنے والوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے واپس مکہ مکرمہ جانے کی بجائے حضرت ابوبصیرؓ کے کیمپ میں جمع ہونا شروع کر دیا اور ان کا اچھا خاصا گروپ بن گیا۔ وہ سیف البحر کے مقام پر آرام سے نہیں بیٹھے بلکہ قریش کے تجارتی قافلوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔ اس سے قریش تنگ آگئے اور انہوں نے آنحضرتؐ کو باقاعدہ پیغام بھجوا کر اس شرط سے دستبرداری اختیار کر لی۔ اس کے بعد آپؐ نے حضرت ابوبصیرؓ کے کیمپ کے لوگوں کو مدینہ منورہ بلا لیا۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ نبی کریمؐ نے معاہدہ کی مکمل پاسداری کی، اس کی خلاف ورزی کرنے والوں میں سے کسی کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی انہیں مدینہ منورہ میں رہنے دیا۔ لیکن قریش کی طرف سے مذکورہ شرط سے دستبرداری کے بعد آپؐ نے نہ صرف ابوبصیرؓ کے کیمپ کے لوگوں کو کیمپ ختم کر کے مدینہ منورہ آجانے کی ہدایت کی بلکہ ان میں سے کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی اور انہیں آزادی کے ساتھ جہاں چاہیں رہنے کی اجازت دے دی جسے آج کی اصطلاح میں ’’عام معافی کا اعلان‘‘ کہا جاتا ہے۔
صلح حدیبہ کے حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے یہ چند پہلو اس لیے عرض کیے ہیں کہ ہمارے آج کے حالات اور مسائل میں ان سے راہنمائی حاصل کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور موجودہ قومی صورتحال میں تمام فریقوں کو اس کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۹ مارچ ۲۰۱۷ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter