Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

18 - 50
مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ
مدیر ’’الشریعہ‘‘ مولانازاہد الراشدی نے ۱۲ جنوری سے ۲۱ جنوری ۲۰۰۱ء تک متحدہ عرب امارات کا تبلیغی دورہ کیا اور مختلف اجتماعات سے خطاب کرنے کے علاوہ سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور متعدد علمی ودینی مراکز میں گئے۔ انہوں نے یہ دورہ جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان کے سابق راہ نما جناب محمد فاروق شیخ اور جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ متحدہ عرب امارات کے سیکرٹری اطلاعات حافظ بشیر احمد چیمہ کی دعوت پر کیا اور دبی ، شارجہ، عجمان، ام القوین، راس الخیمۃ اور الفجیرۃ کی ریاستوں میں احباب سے ملاقاتیں کیں۔ اتفاق سے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن صاحب بھی ان دنوں متحدہ عرب امارات کے دورے پر تھے چنانچہ دونوں راہ نماؤں نے دبی کی مسجد الغریر، مسجد الرفاعۃ اور مسجد بلال بن رباحؓ میں عام اجتماعات سے خطاب کیا اور حافظ بشیر احمد چیمہ کی طرف سے دیے گئے عصرانہ میں شرکت کی۔ مسجد بلال بن رباحؓ میں عام اجتماع سے مولانا زاہد الراشدی کے خطاب کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ (ادارہ)
بعد الحمد والصلوۃ۔ آج کے اس اجتماع سے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمن تفصیلی خطاب کریں گے۔ ان سے قبل مجھے کچھ گزارشات پیش کرنے کو کہا گیا ہے، ا س لیے بطور تمہید چند باتیں آپ سے عرض کروں گا۔ مجھ سے پہلے ہمارے فاضل دوست مولانا مفتی عبد الرحمن نے اپنے خطاب میں افغانستان کی طالبان حکومت کا ذکر کیا ہے اور اسے درپیش مشکلات کا حوالہ دیا ہے۔ بلا شبہ ’’طالبان‘‘ آج کے دور کا مظلوم ترین طبقہ ہے جس کے خلاف کفر ونفاق کی پوری دنیا متحد ہو گئی ہے اور انہیں عالمی استعمار کے سامنے جھکانے یا مٹا دینے کے لیے منصوبے بن چکے ہیں۔
طالبان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کا صرف نام نہیں لیتے بلکہ اپنے ملک میں اسلامی احکام وقوانین کو عملی طور پر نافذ بھی کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ کسی قسم کے بین الاقوامی دباؤ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا اصل جرم یہی ہے جس کی وجہ سے ان کے خلاف پابندیوں اور ان کی اقتصادی ناکہ بندی کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات کوئی نئی نہیں ہے، اس سے قبل بھی اہل حق اس قسم کی مشکلات کا شکار ہوتے آ رہے ہیں حتی کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مکہ مکرمہ کے کفار کی طرف سے اس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب قریش کے باقی خاندانوں نے بنو ہاشم سے مطالبہ کیا تھا کہ محمدؐ کو قتل کے لیے ان کے حوالے کر دیا جائے لیکن بنو ہاشم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں قریش کے تمام قبائل نے مل کر بنو ہاشم کا سوشل بائیکاٹ کر دیا اور جناب رسول اللہؐ اپنے خاندان سمیت شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور رہے۔
کفار کی طرف سے ان کے خلاف یہ پابندیاں عائد کی گئی تھیں کہ ان کے ساتھ لین دین نہیں ہوگا، ان سے رشتہ داری قائم نہیں کی جائے گی، ان کے پاس خوراک وغیرہ کی کوئی چیز نہیں جانے دی جائے گی اور ان کی معاشی ناکہ بندی ہوگی۔ اس دوران آنحضرتؐ اور ان کے ساتھیوں کو کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کا اندازہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے اس ارشاد سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم درختوں کے پتے کھا کر گزارے کیا کرتے تھے اور راستے میں پڑا ہوا خشک چمڑا اٹھا لیتے تھے اور اسے گرم پانی میں نرم کر کے چبا کر نگل لیا کرتے تھے۔
سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وادی میں بھوکے بچے جب روتے چلاتے تو ارد گرد گھومنے والے مشرکین یہ آوازیں سن کو خوش ہوا کرتے تھے۔ اس کیفیت کے ساتھ نبی اکرمؐ اور ان کے خاندان کو محصور رہنا پڑا لیکن مشرکین کی عائد کردہ یہ پابندیاں اسلام کا راستہ نہ روک سکیں اور اسلام کی دعوت وتبلیغ کا عمل نہ صرف جاری رہا بلکہ اس دوران حضرت ابو ذر غفاریؓ اور بہت سے دیگر حضرات نے اسلام قبول کیا اور مشرکین کو اندازہ ہوگیا کہ ان کی پابندیاں اور ناکہ بندی تین سال گزرنے کے باوجود کارگر نہیں ہو رہی تو کچھ سمجھ دار مشرکین نے آگے بڑھ کر وہ معاہدہ ختم کرا دیا۔ اس لیے آج بھی یہ پابندیاں اسلام کا راستہ نہیں روک سکیں گی اور اگر طالبان حکومت اپنے مشن اور پروگرام پر استقامت کے ساتھ گامزن رہی تو پابندیاں لگانے والوں کو بہت جلداندازہ ہو جائے گا کہ ان کا فیصلہ کس قدر غلط تھا۔
میں اس موقع پر اس صورت حال کے حوالہ سے آپ حضرات کی خدمت میں ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مشکلات ومصائب کے بارے میں اسلام کا مزاج کیا ہے؟ اور اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اس پر سیرت نبوی سے دو واقعات پیش کروں گا تاکہ یہ بات ہمارے سامنے رہے کہ مشکلات ومصائب کے دور میں سنت نبوی کیا ہے۔ ایک واقعہ تو اس وقت کا ہے جب آنحضرتؐ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ اس وقت ظاہری کیفیت یہ تھی کہ خود اپنی جان کے تحفظ کا مسئلہ درپیش تھا، رات کی تاریکی میں چھپ کر مکہ مکرمہ سے نکلے تھے، سفر کے لیے عام راستہ اختیار نہیں کیا تھا بلکہ خفیہ راستے سے سفر کر رہے تھے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کے ہمراہ تین دن تک غار ثور میں روپوش رہے اور راستہ میں چلتے ہوئے کسی کو اپنے نام بتانے میں بھی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ یہ تو ظاہری کیفیت تھی کہ بظاہر جان کا بچانا مشکل ہو رہا تھا لیکن اسی دوران سراقہ بن مالکؓ جناب نبی اکرمؐ کو راستہ میں ملے اور پکڑنے میں ناکام ہو کر امان چاہی تو حضورؐ نے ان سے فرمایا کہ ’’سراقہ، میں تمہارے ہاتھوں میں کسری بادشاہ کے کنگن دیکھ رہا ہوں‘‘
یہ محض اتفاق نہیں تھا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے قدرت کے ساتھ ساتھ حکمت کا بھی اظہار تھا جس میں ہمارے لیے دو سبق ہیں۔ ایک یہ کہ خدائی فیصلے ظاہری حالات پر نہیں ہوتے۔ ظاہری حالات جس قدر بھی ناموافق ہوں، اگر مسلمان کا تعلق اللہ تعالی کے ساتھ مضبوط ہے اور اس کا ایمان ویقین پختہ ہے تو ظاہری حالات کی ناسازگاری اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ اور دوسرا سبق یہ ہے کہ مسلمان کو ظاہری حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، مشکلات کتنی ہی کیوں نہ ہوں ،اسے اپنا ہدف سامنے رکھنا چاہئے اور ٹارگٹ میں کوئی کمی نہیں کرنی چاہئے۔ اب دیکھئے کہ جناب رسول اللہؐ ظاہری طور پر کس حال میں ہیں کہ چھپ کر اور جان بچا کر مدینہ منورہ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن نظر کہاں ہے؟ کسری کے کنگنوں پر جو اس وقت کی ایک بڑی سلطنت کا حکمران تھا اور سراقہ بن مالکؓ سے فرمایا جا رہا ہے کہ اسے کسری کے کنگن پہنائے جائیں گے اور پھر یہ صرف ایک وقتی بات نہیں تھی بلکہ پیش گوئی تھی جو حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ امیر المومنین حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور خلافت میں فارس فتح ہوا، کسری کے شاہی خزانے غنیمت کے مال میں مدینہ منورہ آئے، ان میں وہ کنگن بھی تھے جو کسری بادشاہ دربار میں پہنا کرتا تھا۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے سراقہ بن مالک کو بلایا اور یہ کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے کسری کے کنگن انہیں پہنائے کہ اگرچہ سونے کے کنگن پہننا مرد کے لیے جائز نہیں ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کو پورا کرنے کے لیے میں یہ کنگن کچھ دیر کے لیے تمہیں پہنا رہا ہوں۔ اس طرح رسول اکرمؐ نے ہمیں سبق دیا کہ مشکلات ومصائب اور حالات کی ناساز گاری سے گھبرا کر مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور اپنے ہدف اور ٹارگٹ میں کوئی کمزوری نہیں دکھانی چاہئے۔
دوسرا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہے کہ مسلمانو ں کے مقابلہ میں بدر و احد کی جنگ میں ناکام ونامراد ہو کر قریش مکہ نے یہ بات سمجھ لی کہ وہ اکیلے جناب نبی اکرمؐ کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لیے انہوں نے عرب قبائل سے گٹھ جوڑ کر کے مسلمانوں کے خلاف ان کا متحدہ محاذ بنوایا اور ایک بہت بڑا لشکر لے کر مدینہ منورہ کی طرف یلغار کر دی۔ یہ غزوۂ احزاب کی بات ہے جسے غزوۂ خندق بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں ایک طرف عرب قبائل کا بہت بڑا متحدہ محاذ تھا اور دوسری طرف حضورؐ اور ان کے ساتھی تھے جن کی تعداد چھوٹے بڑے سب ملا کر ڈیڑھ ہزار کے قریب تھی۔ آپؐ نے مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ سے خندق کھودنے کا پروگرام بنایا اور خود صحابہ کرام کے ساتھ مل کر دن رات خندق کھودنے میں مصروف رہے۔ قرآن کریم نے سورۃ الاحزاب میں اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اہل ایمان کو یاد دلایا ہے کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم پر چاروں طرف سے لشکر چڑھ دوڑے تھے، جب تمہاری آنکھیں خوف کے مارے پتھرا گئی تھیں، جب خوف کی شدت سے تمہارے دل سینوں سے اچھل کر حلق میں پھنس گئے تھے، جب تم اللہ تعالی کی مدد کے بارے میں گمانوں کا شکار ہونے لگے تھے، جب مومنوں کو آزمائش میں ڈال دیا گیا تھا اور جب ان پر شدید زلزلے کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔
یہ اس وقت کی ظاہری کیفیت تھی جس کا نقشہ قرآن کریم ان الفاظ میں کھینچ رہا ہے اور روایات میں آتا ہے کہ بہت سے خندق کھودنے والوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اور بعض لوگوں نے بھوک کی شدت سے یپٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے حتی کہ ایک صاحب نے آنحضرتؐ کو اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر دکھایا کہ اس نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا ہے تو آپؐ نے اپنے پیٹ مبارک سے کپڑا اٹھا کر دکھا دیا جہاں دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اس صورت حال میں جب ظاہری طور پر سخت مایوسی اور شدید خوف کی کیفیت مدینہ منورہ کی آبادی کا احاطہ کیے ہوئے تھی، حضورؐ سے خندق میں ایک چٹان کے سخت ضربوں کے باوجود نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی، چنانچہ آپؐ خود تشریف لے گئے اور کدال کی ایک ہی ضرب سے چٹان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ جب آپ نے کدال سے چٹان پر ضرب لگائی تو وہاں سے چمک اٹھی اور اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ ’’مجھے اس چمک میں قیصر وکسری کے محلات دکھائی دیے ہیں‘‘
ظاہری کیفیت دیکھئے کہ خوف اور مایوسی کا کیا عالم ہے؟ اور اس حالت میں نظر کی بلندی ملاحظہ کیجئے کہ اس وقت کی دو سب سے بڑی سلطنتوں کے شاہی محلات دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی کوئی اتفاقی بات نہیں تھی بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے خوش خبری تھی اور یہ سبق تھا کہ ظاہری حالات سے مایوس نہ ہو بلکہ اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط رکھو، اس پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے اپنے مشن پر گامزن رہو اور اپنے ٹارگٹ اور ہدف میں کوئی کمزوری نہ آنے دو۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام تر سازوسامان اور لشکر کی کثرت کے باوجود قبائل عرب کی یہ یلغار ناکام ہوئی اور اللہ تعالی نے جناب نبی اکرمؐ کو نہ صرف فتح عطا فرمائی بلکہ اس پیش گوئی کے مطابق قیصر وکسری کے شاہی محلات بھی اپنے اپنے وقت میں مسلمانوں کو عطا فرمائے۔
قرآن کریم میں ہے کہ آزمائش اور ابتلا کے اس سخت ترین دور کے بعد غزوۂ احزاب میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد اس طرح کی کہ ہوا کوتیز کر دیا اور غیبی لشکر آسمان سے اتارے جنہوں نے محاصرہ کرنے والے کافروں کے لشکر کو تتر بتر کر دیا اور وہ کوئی مقصد حاصل کیے بغیر ناکام واپس لوٹ گئے۔ اس لیے ہمیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ طالبان کی اسلامی حکومت اگر اسلام کے مکمل اور عملی نفاذ کے مشن پر قائم رہتی ہے اور ظاہری حالات کی ناسازگاری سے خوفزدہ نہیں ہوتی تو اس کے لیے بھی غیب کی قدرتیں حرکت میں آئیں گی اور امریکہ کی قیادت میں عالمی استعمار کا ان کے خلاف متحدہ محاذ اسی طرح ناکام ہوگا جس طرح جناب رسول اللہؐ کے خلاف قبائل عرب کا اتحاد ناکام ہو گیا تھا۔ البتہ ہمیں اس حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں پر ضرور نگاہ رکھنی چاہئے کہ اپنے مظلوم طالبان بھائیوں کی اس مشکل وقت میں ہم کیا مدد کر سکتے ہیں اور ان کا ہاتھ کس طرح بٹا سکتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقہ سے نباہنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
فروری ۲۰۰۱ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter