Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

29 - 50
خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں
محدثین کرامؒ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی اوصاف و کمالات اور معمولات کو علم حدیث کے ایک مستقل شعبے کی صورت میں مرتب کیا ہے جسے ’’شمائل نبویؐ‘‘ کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے۔ بعض محدثین نے اس پر الگ کتابیں لکھی ہیں اور باذوق اہل علم نے بڑی محبت و عقیدت کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ کے حسن و ذوق کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرتؐ کی اجتماعی، معاشرتی، اور علمی و عملی زندگی کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ ذاتی زندگی کی جزئیات تک روایت کی ہیں جنہیں محدثین کرام نے حدیث کے مستقل ابواب کی صورت میں جمع کر کے قیامت تک امت مسلمہ کی رہنمائی کا اہتمام کر دیا ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا تو ذوق ہی یہ تھا کہ وہ ہر کام اسی ترتیب اور جزئیات کی پاسداری کے ساتھ کرتے تھے جس طرح حضورؐ نے وہ کام کیا تھا۔ جناب رسول اللہؐ نے ہجرت کے بعد ایک ہی حج کیا تھا جو ’’حجۃ الوداع‘‘ کہلاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اس حج میں حضورؐ کے ساتھ تھے اور انہوں نے اس سفر کے آنے جانے کی تفصیلات اس جزرسی کے ساتھ یاد کر رکھی تھیں کہ باقی صحابہ کرامؓ اس پر رشک کیا کرتے تھے۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اس کے بعد زندگی بھر ہر سال حج کیا اور اسی ترتیب کے ساتھ کیا جیسے حضورؐ کے ساتھ کیا تھا۔ جہاں سے آپؐ نے احرام باندھا وہیں سے وہ احرام باندھتے تھے، جہاں آپؐ نے پہلی رات قیام فرمایا وہیں پہلی رات قیام فرماتے تھے، جہاں آپؐ نے دوسرے روز ظہر کی نماز پڑھی وہیں نماز پڑھتے۔ حتیٰ کہ بعض روایات کے مطابق عبد اللہ بن عمرؓ اس مبارک سفر کے دوران پیشاب بھی اسی جگہ کرتے تھے جہاں انہوں نے آپؐ کو پیشاب کرتے دیکھا تھا۔ منٰی میں وہ اسی جگہ خیمہ لگاتے جہاں حضورؐ کا خیمہ حجۃ الوداع میں نصب تھا اور قربانی بھی اسی جگہ کرتے تھے جہاں آپؐ نے قربانی کے جانور ذبح کیے تھے۔ ایک صاحب نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے پوچھا کہ ہم آپ کو بعض کام بڑے اہتمام سے کرتا دیکھتے ہیں مگر باقی صحابہ کرامؓ وہ کام ویسے نہیں کرتے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں تو ہر کام اسی انداز اور ترتیب سے کرتا ہوں جس طرح میں نے جناب رسول اللہؐ کو وہ کام کرتے دیکھا ہے۔
اس قدر جزرسی اور تفصیلات اگرچہ ضروری نہیں ہیں مگر جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ حد درجہ محبت و عقیدت کی علامت ضرور ہیں۔ کیونکہ محبوب کی ہر ادا اور ہر چیز محبت کرنے والے کو محبوب ہوتی ہے، اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے محبوب کی طرح ہو جائے اور اس کی ہر ادا کو اپنا لے۔ اس کی ایک جھلک ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں کہ ہمارے بچے کھلاڑیوں کو کھیلتے دیکھتے ہیں تو جس کھلاڑی کی کوئی ادا کسی نوجوان کو پسند آجاتی ہے وہ اسے اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً کرکٹ کے حوالے سے آپ کو اپنے ماحول میں کئی چھوٹے چھوٹے میانداد نظر آئیں گے، کئی عمران خان ملیں گے، اور کئی شاہد آفریدی دکھائی دیں گے۔ وہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں لیکن بیٹ ایسے پکڑیں گے جیسے جاوید میانداد پکڑتے ہیں، گیند ایسے کرائیں گے جیسے عمران خان کراتے رہے ہیں، اور ایکشن ایسے لیں گے جیسے انہیں شاہد آفریدی کا ایکشن دکھائی دیتا ہے۔ یہ پسند کی علامت ہے، محبت کا اظہار ہے، اور دل میں بس جانے کی بات ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کاذوق بھی یہی تھا اور وہ اس معاملے میں تمام صحابہ کرامؓ میں امتیازی شان رکھتے تھے۔
جناب رسول اللہؐ کے ذاتی اوصاف و خصائل اور معمولات پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں احادیث محدثین کرامؒ نے روایت کی ہیں جن میں بطور نمونہ چند ایک کا تذکرہ کرنے کی سعادت ہم حاصل کر رہے ہیں، اس امید پر کہ اللہ تعالیٰ اس ذکر کی برکت سے اس ذوق کا کچھ حصہ ہمیں بھی نصیب فرما دیں جو قیامت کے روز حضورؐ کی شفاعت اور ان کے ساتھ قربت کا ذریعہ بن جائے، آمین یا رب العالمین۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہؐ کو انسانی خصال میں سے سب سے زیادہ نفرت جھوٹ سے تھی (بیہقی)۔ اور اپنے خاندان کے کسی شخص کے بارے میں جھوٹ کی کسی بات پر مطلع ہوتے تو اس سے اس وقت تک اعراض فرماتے تھے جب تک اس کی توبہ مشاہدے میں نہ آجاتی (مسند احمد)۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ کسی شخص کو کسی علاقے کا حاکم بنا کر بھیجتے تو یہ نصیحت بطور خاص فرماتے تھے کہ لوگوں سے انہیں قریب لانے والی باتیں کرنا، دور کرنے والی باتوں سے گریز کرنا۔ آسانی والی بات کرنا، مشکل اور تنگی والی بات نہ کرنا (ابو داؤد)۔
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ جب کسی سے بیعت لیتے اور کسی کام کے کرنے کا عہد لیتے تو اس عہد میں یہ گنجائش رکھنے کی تلقین فرماتے کہ فیما استطعت کہ جہاں تک میرے بس میں ہوگا اطاعت کروں گا (مسند احمد)۔
حضرت ابو امامہؓ فرماتے تھے کہ جناب رسول اللہؐ کسی کو امیر (حاکم) بنا کر بھیجتے تو یہ تلقین فرماتے کہ تقریر مختصر کرنا اور باتیں تھوڑی کرنا اس لیے کہ کلام میں تبھی جادو جیسی تاثیر ہوتی ہے (طبرانی)۔ ایک طالب علم کے طور پر اس کا مطلب میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضورؐ حاکموں سے فرما رہے ہیں کہ لوگوں کو اپنی جادو بیانی اور گفتگو کے سحر میں ہی نہ جکڑے رکھنا بلکہ ان کے مفاد کے عملی کاموں کو ترجیح دینا۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ جب کسی ساتھی کو رخصت کرتے تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے اور اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک وہ خود ہاتھ نہ چھوڑتا، اور اسے رخصت کرتے وقت دعا سے بھی نوازتے (مسند احمد)۔
حضرت ابو امامہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ سب لوگوں سے زیادہ خوش مزاج اور سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے (طبرانی)۔
حضرت ابوالدرداءؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ جب بھی گفتگو فرماتے، مسکراہٹ آپ کے چہرے پر نظر آتی تھی۔ (مسند احمد)۔
حضرت حنظلہ بن خدیمؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ کسی شخص کو بلاتے تو اس کے پسندیدہ نام اور کنیت کے ساتھ اس کو پکارتے (طبرانی)۔
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہؑ اکثر اوقات اپنے سر مبارک کو ڈھانپ کر رکھتے یعنی سر پر اکثر کپڑا ہوتا تھا (ترمذی)۔
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے، بے مقصد بات نہ کرتے، نماز لمبی پڑھتے، اور خطبہ مختصر ارشاد فرماتے۔ آپؐ کسی بات پر ناک نہیں چڑھاتے تھے اور کسی بیوہ، یتیم یا غلام کے ساتھ اس کے کام کے لیے چلنے میں تکبر نہیں کرتے تھے اور جب تک اس کا کام نہیں ہو جاتا تھا ساتھ رہتے تھے (مستدرک حاکم)۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہؐ اپنے کام اکثر خود کر لیتے تھے۔ کپڑے کو ٹانکا لگا لیتے، بکری کا دودھ دوہ لیتے، اور ذاتی خدمت کے کام بھی خود کر لیتے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ دوسرے روز کے لیے کوئی چیز ذخیرہ نہیں رکھتے تھے اور جو کچھ ہوتا اسی روز خرچ کر ڈالتے تھے (ترمذی)۔
حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ نے فرمایا کہ میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا بھی ہو تو میں اپنے پاس تین دینار سے زیادہ ذخیرہ نہیں رکھوں گا اور سب کا سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دوں گا (بخاری شریف)۔
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ کی خوراک بہت کم تھی۔ وہ اگر دوپہر کا کھانا کھاتے تو رات کا نہیں کھاتے تھے اور رات کا کھانا کھا لیتے تو دوپہر کا نہیں کھاتے تھے (حلیہ)۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خادموں سے پوچھتے رہتے تھے کہ تمہاری کوئی ضرورت تو نہیں؟ تمہیں کوئی کام تو نہیں؟ (مسند احمد) ۔ گویا حضورؐ اپنے خادموں کی ضروریات کا بھی بطور خاص خیال رکھتے تھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بھی ان خصائل مبارکہ کو اپنانے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ پاکستان، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۶ فروری ۲۰۱۱ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter