Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

34 - 50
عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں
۲۹ جنوری کو ڈسٹرکٹ کونسل ہال گوجرانوالہ میں محکمہ اوقاف و مذہبی امور کی طرف سے ڈویژنل سیرت کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کی صدارت ڈی سی او گوجرانوالہ سید نجم احمد شاہ نے کی جبکہ محکمہ اوقاف کے زونل ایڈمنسٹریٹر عشرت اللہ خان نیازی، مولانا خالد حسن مجددی، مولانا محمد رمضان اویسی، مولانا محمد نعیم بٹ، مولانا ریاض خان سواتی، قاری محمد سلیم زاہد، مولانا شاہد فاروق بٹ، قاری سعید احمد اور پروفیسر قاری عبید اللہ عابد کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس کا موضوع تھا ’’عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں‘‘۔ اس موقع پر جو معروضات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج مجھے عدلِ اجتماعی کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور ارشادات گرامی کے حوالہ سے کچھ عرض کرنا ہے، اور اس کے بیسیوں پہلوؤں میں سے صرف ایک پہلو پر چند معروضات پیش کروں گا۔ وہ یہ کہ عام طور پر ایک حکومت اور ریاست کی ذمہ داری میں شہریوں کی جان و مال کی حفاظت، امن کی فراہمی، انصاف کے قیام اور ان کے حقوق کی پاسداری کو شامل کیا جاتا ہے لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت و ریاست کی ذمہ داریوں میں ایک اور بات کا اضافہ کیا کہ وہ شہریوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی اور سوسائٹی کے نادار، بے سہارا اور معذور لوگوں کی کفالت کی بھی ذمہ دار ہے۔اسی کو آج کی دنیا میں رفاہی ریاست اور ویلفیئر اسٹیٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مال چھوڑ کر مرا وہ مال اس کے وارثوں میں تقسیم ہوگا ومن ترک کلًا وضیاعًا فإلیّ وعلیّ اور جو شخص قرض کا بوجھ اور بے سہارا اولاد چھوڑ کر مرا وہ میری طرف رجوع کریں گے اور ان کی ذمہ داری مجھ پر ہوگی۔ گویا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوسائٹی کے نادار، مستحق اور بے سہارا اپنی ضروریات کے لیے میرے پاس آئیں گے، اور آپؐ نے بات صرف فإلیّ پر نہیں چھوڑی بلکہ وعلیّ فرما کر خود کو اس کا ذمہ دار بھی قرار دیا۔ چنانچہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے بیت المال کا تصور سامنے آیا جس کا دائرہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ تھا کہ کسی شخص کو جو ضرورت بھی پیش آتی تھی وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المال کے فنڈ سے اس کی ضرورت پوری فرما دیتے تھے۔ بیسیوں واقعات احادیث میں مذکور ہیں جن میں سے صرف دو کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے خاندان کو ایک سفر کے لیے کچھ اونٹ درکار تھے، میں خاندان کا نمائندہ بن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور سواریوں کا تقاضہ کیا، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اونٹ موجود نہیں تھے اس لیے آپؐ نے نہیں دیے لیکن تھوڑی دیر کے بعد کہیں سے اونٹوں کا بندوبست ہوگیا تو مجھے واپس بلا کر دو جوڑے میرے حوالے کیے۔ اسی طرح ایک واقعہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی اور دل لگی کے حوالہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ مجھے سفر کے لیے اونٹ کی ضرورت ہے۔ آپؐ نے فرمایا ٹھہرو میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں، وہ شخص فکرمند ہوگیا کہ میں اونٹنی کے بچے کے ساتھ کیا کروں گا، تھوڑی دیر اس کی فکرمندی سے محظوظ ہونے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے بندے جو اونٹ میں تجھے دوں گا وہ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوگا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی ضروریات کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتے تھے اور بیت المال سے ان کی ضروریات پوری کی جاتی تھیں۔ جبکہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمرانوں کی مہربانی اور احسان قرار دینے کی بجائے حکومت کی ذمہ داریوں کے طور پر بیان کیا ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مالی نظام یہ تھا کہ غنیمت میں سے بیت المال کو خمس یعنی پانچواں حصہ ملتا تھا اور اس خمس کا خمس جو کل غنیمت کا چار فی صد بنتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات کے لیے دیا جاتا تھا۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق اس خمس الخمس میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج اور خاندان کے دیگر افراد کو خرچہ دیتے تھے اور یہ خرچے پورے ہونے کے بعد جو بچ جاتا تھا وہ پھر بیت المال کو عام مسلمانوں کی ضروریات کے لیے واپس کر دیتے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو لوگوں کی ضروریات حسبِ موقع فراہم کرنے کا ذمہ دار قرار دینے کی بات سب سے پہلے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اور وہیں سے رفاہی ریاست اور ویلفیئر اسٹیٹ کا آغاز ہوتا ہے ، اور آج بہت سی حکومتوں نے رفاہی ریاست کا یہ نظام اختیار کر رکھا ہے۔ یہ نظام خلفاء راشدینؓ کے دور میں باقاعدہ منظم ادارے کی شکل اختیار کر گیا تھا جس کی ایک عملی صورت حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور خلافت کے ایک واقعہ کا ذکر کر کے واضح کرنا چاہتا ہوں جبکہ اس وقت مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیت المال کے آغاز کو کم و بیش ایک صدی گزر چکی تھی۔
کتاب الاموال میں امام ابو عبید قاسم بن سلّامؒ نے واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور خلافت میں ان کے عراق کے گورنر عبد الحمید مرحوم نے ایک سال انہیں خط لکھا کہ صوبہ میں زکوٰۃ و عشر اور دیگر محصولات کی وصولی کے بعد پورے سال کا خرچہ اور بجٹ پورا کر کے کچھ رقم بچ گئی ہے، اس کے بارے میں بتایا جائے کہ ہم کیا کریں؟ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جواب لکھا کہ یہ سروے کرواؤ کہ تمہارے صوبے میں جو لوگ مقروض ہیں اور اپنا قرضہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے، ان کے قرضے اس رقم میں سے ادا کردو، گورنر نے جواب دیا کہ حضرت یہ کام میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ امیر المؤمنین نے دوسرا خط لکھا کہ جن بالغ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں ان کی شادیاں اس رقم میں سے کرا دو۔ گورنر نے جواب دیا کہ یہ کام بھی میں کر چکا ہوں، امیر المؤمنین نے تیسرا خط لکھا کہ جن خاوندوں نے ابھی تک بیویوں کے مہر ادا نہیں کیے اور وہ مہر ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے، ان کے مہر اس رقم میں سے دلوا دو، گورنر نے جواب دیا کہ یہ کام بھی میں کر چکا ہوں۔ امیر المؤمنین نے چوتھا خط لکھا کہ زمینوں کا سروے کرواؤ اور بے آباد زمینوں کی کاشت کے لیے کسانوں کو آسان قسطوں پر قرضے دے دو۔
دل چسپی کی بات یہ ہے کہ میں نے یہ واقعہ ایک مجلس میں بیان کیا تو ایک نوجوان نے مجھ سے سوال کیا کہ مولوی صاحب! یہ صوبے کا بجٹ تھا یا بحر الکاہل تھا، ایک صوبے کے بجٹ میں اتنے پیسے کدھر سے آگئے تھے؟ میں نے جواب دیا کہ انہی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا ایک اور واقعہ سن لو یہ بات بھی سمجھ میں آجائے گی۔ کتاب الاموال ہی کی روایت کے مطابق ایک دن حضرت عمر بن عبد العزیزؒ شام کے وقت گھر واپس آئے تو اہلیہ سے پوچھا کہ تمہارے پاس ایک درہم ہو تو مجھے دے دو ضرورت ہے۔ اس نے پوچھا کیا ضرورت ہے؟ فرمایا کہ گھر آتے ہوئے راستے میں ایک ریڑھی پر انگور دیکھے ہیں، انگور کھانے کو جی چاہتا ہے مگر جیب میں پیسے نہیں ہیں۔ اہلیہ نے کہا کہ آپ کے پاس نہیں ہیں تو میرے پاس کہاں سے آئیں گے؟ پھر اس نے بیویوں والے انداز میں کہا کہ آپ کیسے امیر المؤمنین ہیں کہ اپنے لیے ایک درہم کے انگور بازار سے نہیں منگوا سکتے۔ میں اس کا ترجمہ کیا کرتا ہوں کہ کیا آپ کے پاس اتنا صوابدیدی فنڈ بھی نہیں ہے کہ ایک درہم کے انگور اپنے لیے خرید سکیں؟ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اس پر فرمایا کہ خدا کی بندی جس درہم کی تم بات کر رہی ہو وہ درہم نہیں آگ کا انگارہ ہے۔
میں نے اس نوجوان سے کہا کہ برخوردار! جس ملک کا حکمران سرکاری خزانے کے درہم کو آگ کا انگارہ سمجھے گا اس کے بجٹ میں پیسے ہی پیسے ہوں گا، پھر مقروضوں کے قرضے بھی ادا ہوں گے، کنواروں کی شادیاں بھی ہوں گی، خاوندوں کے مہر بھی ادا ہوں گے، اور کسانوں کو قرضے بھی ملیں گے، لیکن شرط یہ ہے کہ ملک کا حکمران سرکاری خزانے کے روپے کو آگ کا انگارہ تصور کرے۔
حضرات محترم ! میں نے عدلِ اجتماعی اور سوشل جسٹس کے حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کی صرف ایک جھلک آپ کے سامنے پیش کی ہے، آج کی دنیا کو اسی نظام کی تلاش ہے اور یہی نسل انسانی کی بہت بڑی ضرورت ہے، یہ ہماری ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی کہ دنیا کو سوشل جسٹس کے اس تصور سے متعارف کرائیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ کی تعلیمات کی روشنی میں صحیح سمت نسلِ انسانی کی راہ نمائی کا فریضہ سر انجام دیں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۳۱ جنوری ۲۰۱۳ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter