Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

41 - 50
حضورؐ بطور سیاست دان
باغ جناح لاہور کی دارالسلام لائبریری نے 15 جنوری کو قائد اعظم پبلک لائبریری کے وسیع ہال میں ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سیاستدان‘‘ کے عنوان پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس کی صدارت جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان نے کی، جبکہ خطاب کرنے والوں میں جناب اوریا مقبول جان اور جناب تاج دین کے علاوہ راقم الحروف بھی شامل تھا۔ اس موقع پر جو معروضات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی سب سے بڑی صاحب کمالات شخصیت ہیں اور آپ کو کمال کی ہر صفت عروج کے اعلیٰ ترین درجہ پر عطا ہوئی ہے۔ آپ سب سے بڑے رسول و نبی ہیں، سب سے بڑے قانون دان ہیں، سب سے بڑے جرنیل ہیں، سب سے اعلیٰ حکمران ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑے سیاست دان بھی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی کے مختلف اور متنوع پہلو ہیں جن میں سے ہر ایک پر مستقل کام کی ضرورت ہے اور ہمارے ہاں سیرت نبویؐ کے ان پہلوؤں پر سب سے کم کام ہو رہا ہے۔ ہم نے قرآن کریم کی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کو بھی صرف برکت و رحمت اور اجر و ثواب کے حصول کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ برکات و فیوض، رحمتوں اور اجر و ثواب کا بہترین ذریعہ ہے، لیکن اس کا اصل مقصد راہ نمائی حاصل کرنا ہے اور اپنے مسائل و مشکلات کا حل اس میں سے تلاش کرنا ہے، جس کی طرف ہماری توجہ بہت ہی کم ہے۔
سیاسیات کے حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ایک حصہ وہ ہے جن میں اسلام کے سیاسی نظام کا تعارف کرایا گیا ہے، اسلامی ریاست کی بنیادوں کا تعین کیا گیا ہے اور ایک مسلم حکومت کے فرائض اور ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سینکڑوں احادیث اس سلسلہ میں موجود ہیں۔ جبکہ دوسرا حصہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیاستدان اور حاکم وقت کے طور پر سینکڑوں فیصلے کیے ہیں جن میں سے ہر فیصلہ ہمارے لیے سرمۂ بصیرت اور راہ نمائی کا سرچشمہ ہے، بشرطیکہ ہم ان فیصلوں اور واقعات کو سیاسی حکمت و تدبر کے تناظر میں دیکھیں اور ان میں اپنے دور کی مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرنے کا ذوق ہم میں بیدار ہو جائے۔
آج کی محفل میں سیرت طیبہؐ کے اول الذکر پہلو کے بارے میں چند معروضات پیش کرنا چاہوں گا جس میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے سیاسی اصولوں کا تذکرہ فرمایا ہے اور اسلامی ریاست و حکومت کے فرائض اور حقوق کی وضاحت کی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے سیاسی نظام کا تعارف بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق اس طرح کرایا ہے کہ بنی اسرائیل میں سیاست و حکومت کے فرائض حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سر انجام دیتے تھے۔ ایک نبی چلا جاتا تو دوسرا اس کی جگہ آجاتا۔ یعنی سیاست و حکومت کی بنیاد وحی الٰہی پر ہوتی تھی۔ لیکن میرے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا ہے اور کوئی نیا نبی اب نہیں آئے گا۔ اس لیے میرے بعد سیاست و حکومت کا نظام خلفاء کے سپرد ہوگا۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا یہ نظام قائم ہوا اور مسلمانوں کی ریاست و حکومت کی بنیاد بنا۔ اسلامی خلافت کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ملک کا نظام چلایا جائے اور امت مسلمہ کے اجتماعی امور سر انجام دیے جائیں، جیسا کہ خلفاء راشدینؓ اور ان کے بعد خلفاء کرام کرتے رہے ہیں۔
خلافت کے بارے میں ایک اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ خلافت کیسے قائم ہوگی اور خلیفہ کا تقرر کون کرے گا؟ اس کے لیے میں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیا کرتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ اسلامی ریاست و حکومت کے سربراہ کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔ انہوں نے یہ منصب نہ تو طاقت کے زور پر حاصل کیا تھا اور نہ ہی بادشاہی نظام کی طرح خاندانی استحقاق کی بنیاد پر انہیں حکومت ملی تھی۔ بلکہ امت کی اجتماعی صوابدید اور عمومی مشاورت ان کے منصب خلافت کی اساس تھی۔ اس لیے خلافت کا قیام امت کی اجتماعی صوابدید کی بنیاد پر ہی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ میں ہمیں نمائندگی کا اصول بھی ملتا ہے کہ ایک موقع پر بنو ہوازن کے قیدی واپس کرنے کے لیے جب ہزاروں افراد سے براہ راست رائے لینا مشکل نظر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفاء کو درمیان میں ڈالا کہ وہ اپنے اپنے قبیلہ کی رائے معلوم کر کے بتائیں تاکہ اس کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے۔ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عوام کی اجتماعی رائے ان کے نمائندوں کے ذریعے معلوم کی۔ عرفاء اور نقباء کی یہ اصطلاح قدیم سے چلی آرہی ہے اور قرآن کریم میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔ اس لیے عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے نمائندگی کا یہ طریقہ بھی اسلامی ریاست کی ایک اہم بنیاد بن جاتا ہے۔
لیکن میں اس وقت سب سے زیادہ توجہ اسلامی ریاست کے اس پہلو کی طرف دلانا چاہوں گا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فلاحی اور رفاہی ریاست کا نظام دیا جسے آج کی دنیا میں ویلفیئر سوسائٹی کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث کے مطابق ارشاد فرمایا کہ معاشرہ میں جو لوگ بوجھ تلے دبے ہیں یا بے سہارا ہیں، وہ میری ذمہ داری ہیں۔ یعنی ان کی کفالت بیت المال کرے گا۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور پھر خلفاء راشدینؓ کے دور میں بیت المال کا یہ نظام کفالت اس قدر مستحکم ہوگیا تھا کہ پورے ملک کے بے روزگاروں، معذوروں اور بے سہارا لوگوں کی کفالت بیت المال کے ذمہ سمجھی جاتی تھی اور یہ ضروریات بطریق احسن پوری کی جاتی تھیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی ریاست کی بنیاد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق تین اصولوں پر ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی اطاعت ریاست و حکومت کی سب سے بڑی اساس ہے۔ دوسرا یہ کہ حکومت کا قیام امت مسلمہ کی صوابدید پر عوامی مشاورت کے ذریعہ ہوگا۔ اور تیسرا یہ کہ اسلامی حکومت نظم مملکت کو چلانے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کی اجتماعی کفالت اور تمام شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی بھی ذمہ دار ہے۔
اگر ہم ان اصولوں کو سامنے رکھ کر پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کی طرف پیش رفت کریں تو قیام پاکستان کے اس مقصد کی تکمیل ہو سکتی ہے جس کے لیے لاکھوں مسلمانوں کی بے پناہ قربانیوں کے بعد یہ وطن عزیز وجود میں آیا تھا۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۲ جنوری ۲۰۱۵ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter