Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

39 - 50
سیرت طیبہ اور امن عامہ
ضلع گجرات میں مولانا حافظ محمد عمر عثمانی اور ان کے رفقاء کی ٹیم گزشتہ چند سالوں سے ’’جمعیۃ علماء اہل سنت‘‘ کے عنوان سے متحرک ہے اور دینی و فکری بیداری کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ باذوق اور زندہ دل علماء کے اس گروپ نے اپنے پروگراموں میں ایک ندرت یہ شروع کر رکھی ہے کہ ملک کے مختلف دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے ضلع گجرات کے علماء کرام کی اپنی سالانہ تقریب میں دستار بندی کا اہتمام کرتے ہیں جس سے دینی تعلیم کے شعبہ میں ضلع کی پیش رفت سامنے آتی ہے۔ نوجوان فضلاء کا ایک دوسرے سے تعارف اور رابطہ ہوتا ہے اور دینی جدوجہد میں حوصلہ و اعتماد بڑھتا ہے۔ مختلف مواقع پر ایسی تقریبات میں حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری تشریف لا چکے ہیں۔ اس سال یہ تقریب 31 دسمبر کو نماز عشاء کے بعد نور ریسٹورنٹ پنجن کسانہ کے وسیع ہال میں منعقد ہوئی جس میں جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے مہتمم مولانا مفتی محمد طیب، جامعہ فاروقیہ راولپنڈی کے مہتمم مولانا قاضی عبد الرشید، مداح رسولؐ قاری ابوبکر مدنی، حافظ محمد عمر عثمانی اور دیگر علماء کرام کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، جامعہ امدادیہ فیصل آباد، جامعہ عربیہ رائے ونڈ، جامعہ حنفیہ تعلیم اسلام جہلم اور دیگر جامعات سے گزشتہ سال دورہ حدیث کی تکمیل کرنے والے ضلع گجرات کے پچیس فضلاء کی دستار بندی کی گئی۔ راقم الحروف نے جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجھ سے پہلے اپنی گفتگو میں حضرت مولانا مفتی محمد طیب نے امن عامہ کے حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور اسوہ حسنہ کا ذکر کیا ہے اور اس کے اس پہلو پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے کہ آنحضرتؐ نے دس سالہ مدنی زندگی میں جہاں بہت سے غزوات کی قیادت فرمائی ہے اور جہاد و قتال کیا ہے وہاں دوسری قوموں کے ساتھ بہت سے معاہدات بھی کیے ہیں۔ اور باہمی صلح و امن کے معاملات بھی فرمائے ہیں جن کا آغاز میثاق مدینہ سے ہوا تھا اور اس کے بعد درجنوں اقوام کے ساتھ وقتاً فوقتاً معاہدے کیے گئے۔ میں بھی اسی گفتگو کو آگے بڑھاؤں گا اور یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب نبی اکرمؐ نے ہمیشہ امن کو ترجیح دی ہے، معاشرہ میں منافرت اور فساد کو پھیلنے سے روکا ہے، اور عام لوگوں کے امن کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات و احساسات کا بھی پوری طرح لحاظ رکھا ہے۔ اسی طرح سوسائٹی میں فساد کا ذریعہ بننے والی باتوں کی جناب رسول اللہؐ نے سختی کے ساتھ نفی فرمائی ہے اور ان کی مذمت کی ہے۔ اس حوالہ سے بیسیوں واقعات میں سے ایک دو کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
قبیلہ بنو مصطلق کی طرف زکوٰۃ و عشر کی وصولی کے لیے آنحضرتؐ کی طرف سے تشریف لے جانے والے عامل کا استقبال کرنے کے لیے قبیلہ کے لوگ مسلح ہو کر گاؤں سے باہر جمع ہوئے تو مدینہ منورہ سے تشریف لانے والے بزرگ انہیں ہتھیار بکف دیکھ کر مغالطہ کا شکار ہوگئے کہ یہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ منظر دیکھتے ہی واپس مدینہ کی طرف لوٹ گئے، انہوں نے جب کچھ لوگوں کو بتایا کہ وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے بڑی مشکل سے جان بچا کر آیا ہوں تو مدینہ میں کھلبلی مچ گئی اور لوگ رد عمل میں اس قبیلہ کے خلاف کاروائی کا تقاضہ کرنے لگے۔ اتنے میں قبیلہ کے سردار بھی مدینہ منورہ پہنچ گئے اور وضاحت کی کہ ہم قتل کرنے کے لیے نہیں بلکہ استقبال اور پروٹوکول کے لیے ہتھیار بکف ہو کرجناب رسول اللہؐ کے قاصد کے انتظار میں بستی سے باہر کھڑے تھے۔
اس موقع پر قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہوا کہ اے ایمان والو! جب اس قسم کی کوئی خبر آئے تو رد عمل میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے خبر کی تحقیق کر لیا کرو، تاکہ کسی قوم کے خلاف کاروائی کر ڈالنے کے بعد یہ معلوم کر کے تمہیں شرمندگی نہ ہو کہ وہ خبر تو صحیح نہیں تھی۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ کوئی جھوٹی سچی خبر سنتے ہی موبائل فونوں کا میسج سسٹم متحرک ہو جاتا ہے اور ٹی وی چینلوں پر پٹیاں چل جاتی ہیں۔ چند گھنٹوں میں وہ خبر ہر طرف پھیل کر اپنا کام دکھا چکتی ہے، اور فساد و جدال کے معرکے بپا ہو چکتے ہیں تو دوسرے دن پتہ چلتا ہے کہ وہ میسج درست نہیں تھا اور وہ ٹی وی کی پٹی تحقیق کے بغیر تھی۔ آج معاشرے میں ہر طرف پھیلنے والے فساد و قتال پر قابو پانے کے لیے ہمیں خبر کی تحقیق کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ میسج اور پٹی کی اس وبا کو کنٹرول کرنا ہوگا اور حضورؐ کے اس ارشاد گرامی کو زیادہ سے زیادہ عام کرنا ہوگا کہ:
’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو تحقیق کے بغیر آگے بیان کر دے۔‘‘
ہمارے ہاں ایک اور بیماری پھیلتی جا رہی ہے کہ تکفیر اور اس کی بنیاد پر قتل کا رجحان عام ہو رہا ہے۔ فلاں کافر ہے اسے قتل کر دو، اور فلاں مرتد ہے اس لیے واجب القتل ہے۔ جبکہ اس حوالہ سے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ میں علماء کرام کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے اس پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ آپؐ کو مدینہ منورہ میں عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھ اس کے سینکڑوں ساتھیوں کی ریشہ دوانیوں کا مسلسل سامنا رہا۔ ان لوگوں پر خود قرآن کریم نے وماہم بمؤمنین کہہ کر کفر کا فتویٰ لگایا۔ اسلام اور رسول اکرمؐ کے خلاف ان کی متعدد سازشیں ثابت ہوگئیں مگر آپؐ نے انہیں قتل نہیں کیا۔ بلکہ حضرت عمرؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کی درخواست کے باوجود انہیں قتل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اور قتل نہ کرنے یا اس کی اجازت نہ دینے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ لوگ یہ کہیں گے کہ محمدؐ تو اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کرنے لگے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی اقدام کا اپنی جگہ صحیح ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی دیکھنا سنت نبویؐ ہے کہ اس کے عمومی اثرات کیا ہوں گے اور دنیا والے اس کا کیا مطلب سمجھیں گے؟
اسی طرح قریش کی طرف سے خانہ کعبہ کی تعمیر کے دوران بیت اللہ کی ابراہیمی بنیادوں کو نظر انداز کر دینے پر حضورؐ خوش نہیں تھے۔ انہوں نے اس خواہش کا برملا اظہار فرما دیا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ بیت اللہ کی عمارت کو شہید کر کے اسے دوبارہ ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کرد وں۔ لیکن ایسا نہ کرنے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ قوم قریش نئی نئی مسلمان ہوئی ہے، یہ اس بات کو محسوس کریں گے کہ ان کا تعمیر کردہ بیت اللہ شہید کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ کسی بھی کام کے عمومی اثرات کا لحاظ رکھنا اور عام لوگوں کے جذبات و احساسات کا احترام کرنا بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو اسوہ نبویؐ کے اس پہلو کو سامنے رکھنے کی صورت میں ہم معاشرتی فساد اور باہمی قتل و قتال کے بہت سے معاملات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
میری علماء کرام سے گزارش ہے کہ آج کے حالات کے تناظر میں حضورؐ کی سیرت طیبہ اور اسوہ حسنہ کے ان پہلوؤں کو زیادہ وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ کیونکہ جس دلدل میں قومی سطح پر ہم بری طرح پھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کا راستہ یہی ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۳ جنوری ۲۰۱۵ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter