Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

46 - 50
معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق
آج کے حالات کے تناظر میں جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور اسوہ حسنہ کا ایک اہم پہلو ذکر کیا جا رہا ہے جو یقیناًہمارے لیے راہ نمائی کا باعث ہے، خدا کرے کہ ہم اس سے صحیح طور پر استفادہ کر سکیں۔ صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں جہاں یہ طے ہوا تھا کہ مسلمانوں اور قریش کے درمیان دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، وہاں دوسری شرائط کے ساتھ ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ سے قریش کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرے گا تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا (نعوذ باللہ) ساتھ چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلا جائے گا تو اس کی واپسی ضروری نہیں ہوگی۔
اس شرط پر مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب کا پیدا ہونا فطری امر تھا کہ یہ برابری کی شرط نہیں تھی اور معاہدات کی روح کے خلاف تھی۔ حضرت عمرؓ نے تو اس اضطراب کا کھلم کھلا اظہار بھی کر دیا تھا لیکن حضورؐ نے نہ صرف اس شرط کو منظور کر لیا بلکہ اس موقع پر قریش کی طرف سے مذاکرات کرنے والے نمائندہ سہیل بن عمرو کا اپنا بیٹا ابو جندلؓ زنجیروں میں جکڑا ہوا مسلمانوں کے ساتھ جانے کے لیے کسی طرح حدیبیہ تک آ پہنچا تو سہیل بن عمرو کے مطالبہ پر آنحضرتؐ نے اسے اسی طرح پابجولاں اس کے والد کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس بھجوا دیا۔ جبکہ حضرت عمرؓ اور دیگر مسلمانوں کی اس حوالہ سے بے چینی اور اضطراب میں انہیں تسلی دیتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ فرمایا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے کر رہے ہیں، اس لیے اسی میں خیر ہوگی۔
اس معاہدہ کو تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ ایک قریشی نوجوان ابو بصیرؓ مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچ گئے جس پر مکہ والوں نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا اور دو آدمی انہیں واپس لانے کے لیے بھجوائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے ابو بصیرؓ کو ان دو نمائندوں کے ہمراہ واپس بھجوا دیا، راستہ میں ایک جگہ ابوبصیرؓ نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور انہی میں سے ایک کی تلوار لے کر اسے قتل کر دیا اور مدینہ منورہ واپس آکر حضورؐ سے کہا کہ آپ نے تو معاہدہ کی پابندی کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے، اب میں ان سے جان چھڑا کر واپس آگیا ہوں۔ اس پر نبی کریمؐ نے شدید رد عمل کا اظہار فرمایا اور اس کے بارے میں کہا کہ ویل لأمہ مسعر حرب اس کی ماں کے لیے ہلاکت ہو یہ لڑائی کی آگ بھڑکائے گا۔ اتنے میں راستہ میں ابو بصیرؓ کے وار سے بچ جانے والا دوسرا شخص بھی بھاگ کر مدینہ منورہ آگیا اور حضورؐ کو سارا ماجرا سنا دیا۔ جب حضرت ابو بصیرؓ نے اپنی کاروائی پر حضورؐ کا سخت رد عمل دیکھا تو چپکے سے وہاں سے نکل گئے اور مکہ مکرمہ واپس جانے کی بجائے راستہ میں ’’سیف البحر‘‘ کے مقام پر ڈیرہ لگا لیا۔ یہ مکہ مکرمہ سے شام جانے والے تجارتی قافلوں کی گزرگاہ میں تھا۔ چند دنوں کے بعد حضرت ابو جندلؓ بھی کسی طرح جان بچا کر ان کے پاس وہاں آگئے جنہیں صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن عمرو کے ساتھ پابجولاں واپس کر دیا تھا ۔
اس کے بعد یہ معمول بن گیا کہ مکہ مکرمہ کے علاقہ سے جو شخص بھی مسلمان ہوتا وہ مدینہ منورہ جانے کی بجائے حضرت ابوبصیرؓ کے کیمپ میں پہنچ جاتا۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد ستر تک پہنچ گئی، جبکہ بعض روایات میں تین سو کی تعداد بھی مذکور ہے۔ انہوں نے قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنا اور ان کا سامان چھیننا شروع کر دیا اور کچھ افراد ان کے ہاتھوں قتل بھی ہوئے۔ اس پر قریش میں تشویش پیدا ہوئی مگر وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اس لیے کہ حضورؐ نے ان میں سے کسی شخص کو قبول نہیں کیا تھا، بلکہ مدینہ منورہ پہنچنے والوں کو واپس کر دیا تھا اور ڈانٹ بھی پلائی تھی۔ یہ کیمپ آزاد علاقہ میں تھا جس کی ذمہ داری آنحضرتؐ پر عائد نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ان لوگوں سے نمٹنا قریش کے بس میں رہا تھا۔ چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے طے کیا کہ اس ساری صورت حال کی اصل وجہ معاہدۂ حدیبیہ کی وہ شرط ہے جو یک طرفہ تھی اور جس کے نتیجے میں یہ حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس لیے قریش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد بھجوا کر پیش کش کی کہ اگر یہ کیمپ ختم ہو جائے تو وہ معاہدہ کی اس شق سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اس پر حضورؐ نے قریش کی پیش کش قبول کر کے حضرت ابوبصیرؓ کو خط بھجوایا کہ انہیں معاہدۂ حدیبیہ کی جس شق کی وجہ سے پریشانی تھی وہ ختم ہوگئی ہے اس لیے وہ احتجاجی کیمپ ختم کر کے مدینہ منورہ آجائیں، انہیں قبول کر لیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیمپ ختم کر کے واپس آنے والوں کے لیے ’’عام معافی‘‘ کا اعلان کر دیا تھا۔
تاریخی روایات میں ہے کہ آنحضرتؐ کا یہ گرامی نامہ حضرت ابو بصیرؓ کوپہنچا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کر کے انہیں سنایا، لیکن ابھی وہ خط پڑھ ہی رہے تھے کہ اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے ان کا انتقال ہوگیا اور وہ اس کیفیت میں فوت ہوئے کہ نبی کریمؐ کا نامۂ مبارک ان کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت ابو جندلؓ ان کے جنازہ اور تدفین کے بعد حضورؐ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مدینہ منورہ آگئے اور دوسرے سب ساتھی بھی کیمپ ختم کر کے اپنی اپنی محفوظ جگہوں پر چلے گئے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو مسلمان سوسائٹی کے حصہ کے طور پر قبول فرمایا اور کسی کو دوبارہ سرزنش نہیں کی۔ جبکہ حضرت ابو جندلؓ خلافت راشدہ کے دور میں ایک جہاد کے دوران شہید ہوئے۔
سیرت النبیؐ کے اس اہم واقعہ اور اسوۂ نبویؐ کے اس اہم پہلو سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ معاہدہ کی مکمل پاسداری کی اور اس میں کوئی لچک نہیں دکھائی۔
معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والوں اور ان کے کسی عمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا، ڈانٹ پلائی اور لا تعلقی کا اظہار کیا۔
معاہدہ کی ناجائز اور یک طرفہ شق کا فریق مخالف میں احساس پیدا ہونے پر ان کی طرف سے اس شق سے دست برداری کو قبول فرمایا۔
خراب ہو جانے والے حالات کو صحیح سمت لے جانے کے لیے ان کے اسباب و عوامل کو بھی سامنے رکھا گیا اور ان کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔
کیمپ ختم کر کے مدینہ منورہ یا اپنے اپنے محفوظ ٹھکانوں پر چلے جانے والوں کو واپسی کا راستہ دیا گیا او ران سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔
اس قسم کے حالات میں اسوۂ نبوی میں ہمارے لیے یہ راہ نمائی موجود ہے، لیکن کیا ہمارے پالیسی ساز اس پر غور کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۵ فروری ۲۰۱۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter