Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

2 - 50
اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو
جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی انسانی تاریخ کی وہ منفرد اور ممتاز ترین شخصیت ہے جس کے حالات زندگی، عادات و اطوار، ارشادات و فرمودات، اور اخلاق حسنہ اس قدر تفصیل کے ساتھ تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں کہ آنحضرتؐ کی زندگی ایک کھلی کتاب کے طور پر نسل انسانی کے سامنے ہے اور آپؐ کی معاشرتی و خاندانی حتیٰ کہ شخصی اور پرائیویٹ زندگی کا بھی کوئی پہلو تاریخ کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہا۔ اسے محض اتفاق قرار نہیں دیا جا سکتا کہ انسانی تاریخ اپنے دامن میں جناب رسول اللہؐ کے سوا کسی اور شخصیت کے احوال و اقوال کو اس اہتمام کے ساتھ محفوظ نہیں رکھ سکی۔ بلکہ یہ قدرتِ خداوندی کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کے تکوینی فیصلے کا آئینہ دار ہے کہ جب اللہ رب العزت نے اپنے پاکیزہ کلام قرآن کریم میں جناب محمد رسول اللہؐ کی زندگی کو پوری نسل انسانی کے لیے اسوہ اور نمونہ قرار دیا تو اس اسوۂ حسنہ او رنمونۂ کامل کا اپنی تمام جزئیات و تفصیلات کے ساتھ تاریخ کے صفحات پر محفوظ رہنا اس حکم خداوندی کا منطقی تقاضہ ہے۔ اور یہ منطقی تقاضہ ایک معجزہ کے طور پر تاریخ انسانی کا ناقابل فراموش باب بن چکا ہے۔
انسانی فطرت ہے کہ ایک انسان زندگی کے کسی بھی شعبہ میں قدم رکھنے اور آگے بڑھنے سے پہلے اپنے سے بہتر شخص کے عمل و کردار کو بطور نمونہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جو شخص کسی بھی حوالے سے اس کی نظروں میں بہتر اور خوب قرار پاتا ہے اس کی پیروی کو وہ اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ’’آئیڈیل کی تلاش‘‘ کا تصور اسی انسانی فطرت کا اظہار ہے اور اللہ رب العزت نے نسل انسانی کی ہدایت و راہنمائی کے نظام میں اس کی فطرت کے اس پہلو کا لحاظ رکھا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کی سب سے پہلی سورہ الفاتحہ میں انسان کو ہدایت کے لیے جو دعا سکھائی گئی ہے وہ یہی ہے کہ
’’اے اللہ! ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تیرا انعام ہوا ، نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جو تیرے غضب کا شکار ہوئے۔‘‘
یہ انعام یافتہ لوگ جن کے نقش قدم پر چلنے کی سورہ فاتحہ میں تلقین کی گئی ہے بلاشبہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے سچے پیروکاروں کا مقدس گروہ ہے جو اپنے کردار و اخلاق کے اعتبار سے نسل انسانی کا سب سے ممتاز طبقہ ہے۔ اور نسل انسانی نے اپنے اپنے دور میں اس طبقہ کے ہر فرد سے راہنمائی اور ہدایت حاصل کی ہے۔ لیکن ان نیک اور پارسا شخصیات کی زندگیاں اپنی اپنی جگہ ہدایت کا منبع ہونے کے باوجود آج کے انسان کے لیے تاریخ کے صفحات پر اس انداز سے محفوظ نہیں ہیں کہ وہ ان سے اپنی زندگی کے مسائل و مشکلات میں راہنمائی حاصل کر سکے۔ سوائے جناب محمد رسول اللہؐ کی حیات مبارکہ کے کہ آج کا انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں راہنمائی حاصل کرنا چاہے تو اسے آنحضرتؐ کے حالاتِ زندگی یا اقوال و ارشادات میں راہنمائی کی کوئی نہ کوئی بنیاد ضرور مل جائے گی۔ یہ محض عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے آزمائش کی کسی بھی کسوٹی پر آج بھی پرکھا جا سکتا ہے۔
آج نسل انسانی جس ذہنی انتشار، دلی بے اطمینانی اور معاشرتی انارکی کا شکار ہے اس نے ان تمام نظریات، افکار، فلسفوں اور نظاموں کے بھرم توڑ کر رکھ دیے ہیں جن کے تانے بانے خود انسان ہزاروں برس سے اپنے اردگرد بنتا آرہا ہے، اور جن کے سہارے انسانی معاشرہ کو امن و سکون کی منزل سے ہمکنار کرنے کا کوئی بھی خواب تعمیر کا دامن نہیں تھام سکا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بے راہ روی کے تپتے ہوئے ریگستان میں بھٹکنے والی انسانی کی راہنمائی اس سرچشمۂ ہدایت کی طرف کی جائے جو سب سے زیادہ محفوظ، شفاف، شفا بخش اور خوش ذائقہ ہے۔ اور بلاشبہ وہ جناب رسول اللہؐ کا اسوہ حسنہ ہے جس کی پیروی کے بغیر نسل انسانی امن و سکون کی حقیقی منزل سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سراپا مجموعۂ صفاتِ حمیدہ ہے۔ آپؐ کی حیات مبارکہ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اربابِ بصیرت اور اہلِ فکر و دانش سے خراج عقیدت وصول نہ کر چکا ہو۔ لیکن آنحضرتؐ کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو جس نے دوست و دشمن سب کو اس بارگاہ خیر و حسن میں سرنیاز خم کرنے پر مجبور کر دیا، آپؐ کے اخلاق کریمانہ ہیں جسے
قران کریم نے ’’خلق عظیم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کان خلقہ القرآن کہہ کر اسے قرآن پاک کی عملی تعبیر و تفسیر قرار دیا ہے۔
جناب رسالت مآب ایک حدیث میں خود اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق کہ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ ’’مجھے اچھے کام مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ آنحضرتؐ نے اچھے کاموں یعنی مکارم اخلاق کو جن بلندیوں سے ہمکنار کیا ان کی مثال پیش کرنے سے تاریخ آج تک قاصر ہے۔ آپؐ نے اپنے پیروکاروں کو بھی اچھی عادات اور بہتر معاملات کی تلقین فرمائی ہے۔ اور اخلاق کریمانہ انہی دو امور سے عبارت ہے۔
ایک حدیث میں ارشاد نبویؐ ہے مجھے تم سب میں سب سے زیادہ اچھا وہ شخص لگتا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور سب سے برا میرے نزدیک وہ ہے جو برے اخلاق کا حامل ہے۔
ایک اور حدیث کے مطابق آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ صاحب ایمان شخص اچھے اخلاق کی بدولت ان لوگوں جیسا مقام حاصل کر لیتا ہے جو رات بھر نفل پڑھنے اور دن کو روزہ رکھنے کے عادی ہیں۔
ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا کہ زیادہ کامل ایمان ان لوگوں کا ہے جو اچھے اخلاق والے ہیں۔
ایک صحابیؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! انسان کو سب سے بہتر چیز کون سی عطا ہوئی ہے؟ فرمایا، اچھے اخلاق۔
حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی اکرمؐ نے آخری ملاقات میں جو وصیت کی اس میں فرمایا کہ تم لوگوں کے ساتھ اپنے اخلاق بہتر بناؤ۔
ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جناب رسالت مآبؐ اپنے بارے میں یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! تو نے جس طرح میری جسمانی بناوٹ کو بہتر بنایا ہے اس طرح میری عادات و اخلاق کو بھی بہتر کر دے۔
حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جس نے جھوٹ ترک کر دیا اس کا ٹھکانہ جنت کے آغاز میں ہوگا، جس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا ترک کیا اس کا ٹھکانہ جنت کے درمیان ہوگا، اور جس نے اپنی ساری عادات و اخلاق کو بہتر بنا لیا اسے جنت کے سب سے اوپر والے حصہ میں جگہ ملے گی۔
اخلاق و عادات کے حوالہ سے جناب رسول اللہؐ نے صرف اپنی زندگی اور عمل کا نمونہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ اپنی تعلیمات و ہدایات میں اچھے اور برے اخلاق کے درمیان ایک حد فاصل قائم کر دی ہے۔ آپؐ نے اخلاق حسنہ کا ایک ایسا معیار مقرر کر دیا ہے جو ڈیڑھ ہزار سال کے لگ بھگ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس باب میں حرف آخر ہے۔ آپؐ نے اچھے اخلاق کی تفصیل بیان فرمائی ہے، اچھی عادات کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ہر ایک کے فوائد سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے، اور پھر خود ان پر عمل کر کے اس کا نمونہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح جناب نبی کریمؐ نے برے اخلاق اور بد عادات کا تذکرہ فرمایا ہے، ان کے نتائج سے لوگوں کو خبردار کیا ہے، اور خود اس سے بچ کر بری عادات سے گریز کی عملی تربیت دی ہے۔
یہ انسانی معاشرہ پر درسگاہِ نبویؐ کا سب سے بڑا احسان ہے کہ اسے اخلاق کریمانہ کی تعلیم اور اس پر عملدرآمد کا پورا پیکیج ایک ہی جگہ حسین توازن کے ساتھ مل رہا ہے۔ اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ ان کی تربیت یافتہ جماعت (صحابہ کرامؓ) کی اجتماعی زندگی بھی کھلی کتاب کی صورت میں لوگوں کے سامنے ہے جو اجتماعی اخلاق و آداب اور عادات و اطوار میں قیامت تک انسانی معاشرہ کی راہنمائی کرتی رہے گی۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
اکتوبر ۱۹۹۴ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter