Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

35 - 50
میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ
۲۳ جنوری ۲۰۱۲ء کو پریس کلب لاہور میں ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس میں جناب امجد اسلام امجد، جسٹس (ر) نذیر غازی، جناب اوریا مقبول جان اور دیگر ممتاز دانش ور بھی شریک تھے۔ سیمینار میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس و حرمت کے حوالہ سے بنائی جانے والی ایک فلم زیر بحث تھی اور اس فلم کا ایک حصہ شرکاء کو دکھایا گیا، میں نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ ۔ اس فلم کے حوالہ سے دو پہلوؤں پر تو کچھ عرض نہیں کر سکوں گا۔ ایک اس کا فنی اور تکنیکی پہلو ہے جس کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، اس لیے کہ میں اس فن سے واقف نہیں ہوں اور نہ ہی اس کا ذوق رکھتا ہوں۔ دوسرا پہلو جواز اور عدمِ جواز کی بحث کا ہے، اس کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں کہہ سکوں گا؛ اس لیے کہ یہ مفتیان کرام کا کام ہے اور میں مفتی نہیں ہوں۔ چنانچہ نہ تو اس سلسلہ میں کوئی فتویٰ دوں گا اور نہ ہی کسی فتوے سے اختلاف کرنا چاہوں گا۔ البتہ ایک اور پہلو سے کچھ معروضات پیش کروں گا اور وہ ہے ضرورت کا پہلو۔
چونکہ میں خود بھی اس محاذ کا آدمی ہوں، اس لیے محاذ کی ضروریات اور تقاضوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ احزاب سے فارغ ہوئے تو آپ نے مسجد نبویؐ میں ایک اعلان فرمایا کہ اب قریشیوں کو ہمارے خلاف جنگ کے لیے یہاں آنے کی ہمت نہیں ہوگی، اب جب بھی جائیں گے ہم ہی جائیں گے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ اب یہ ہمارے خلاف زبان کی جنگ لڑیں گے اور خطابت و شاعری کا محاذ گرم کریں گے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کریں گے، پروپیگنڈہ کریں گے، کردار کشی کریں گے اور عرب قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں گے۔ یہ فرما کر جناب رسول اللہؐ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ اس جنگ میں کون آگے بڑھے گا؟ اس موقع پر تین انصاری صحابیؓ حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ جنگ ہم لڑیں گے۔ چنانچہ ان تینوں نے شاعری کے محاذ پر جبکہ ایک اور انصاری صحابی حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت کے محاذ پر یہ جنگ لڑی اور اس شان سے لڑی کہ حضرت حسان بن ثابتؓ مسجد نبویؐ میں منبر پر کھڑے ہو کر کفار کے ادبی حملوں کا جواب دیا کرتے تھے اور حضورؐ کی مدحت کے ساتھ ساتھ اسلام کی خوبیاں بیان کرتے تھے جبکہ آپؐ سامنے بیٹھے انہیں داد بھی دیتے تھے اور ان کے لیے دعا بھی فرماتے تھے۔
اسی طرح یہ واقعہ بھی بخاری شریف میں مذکور ہے کہ عمرۃ القضا کے موقع پر حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ آنحضرتؐ کی اونٹنی کی مہار پکڑے جب مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے تو احرام باندھے ہوئے تلبیہ پڑھنے کی بجائے رزمیہ اشعار پڑھتے جا رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں اس سے رک جانے کے لیے اشارہ کیا تو حضورؐ نے انہیں آواز دی کہ دعہ یا عمرؓ عمر! اسے پڑھنے دو؛ اس کے اشعار تمہارے تیروں سے زیادہ کافروں کے سینوں میں نشانے پر لگ رہے ہیں۔
اس کے ساتھ یہ واقعہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بنو تمیم کا وفد جب مدینہ منورہ آیا تو انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعر و خطابت میں مقابلہ کی دعوت دے دی جو آپؐ نے قبول فرمائی۔ اس کے لیے باقاعدہ مجلس بپا ہوئی جس میں بنو تمیم کے شاعر و خطیب نے اپنی خطابت اور شاعری کے جوہر دکھائے جس کے جواب میں حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت اور حضرت حسان بن ثابتؓ نے شاعری میں اسلام کی دعوت اور حضورؐ کی مدحت و تعارف پر بات کی، چنانچہ ان کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے بنو تمیم نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس لیے ایک بات تو میں یہ عرض کروں گا کہ شعر و خطابت اس دور میں ابلاغ کے موثر ترین ذرائع تھے جنہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر انداز نہیں کیا بلکہ بھرپور طریقہ سے استعمال کیا، آج اس کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے اور ابلاغ کے دیگر موثر ترین ذرائع بھی سامنے آگئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ہمیں اسلام کی دعوت اور دفاع دونوں کے لیے ان کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حالت امن اور حالت جنگ کے قوانین میں فرق ہوتا ہے، بہت سی باتیں جو حالت امن میں درست نہیں ہوتیں مگر حالت جنگ میں انہیں مجبورًا اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ایک شخص محاذ جنگ پر دشمن کے سامنے کھڑا ہے تو اسے یہ دیکھنا ہے کہ دشمن کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں کون سا ہتھیار اختیار کر کے دشمن کو زیر کر سکتا ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اس کی مثال عرض کروں گا کہ ایٹم بم کو اسلام کی جنگی اخلاقیات کی رو سے ایک جائز ہتھیار قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اور جہاد کے جو تقاضے اور دائرے بیان فرمائے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کرنا، بوڑھے کو قتل نہیں کرنا، غیر متعلقہ شخص کو قتل نہیں کرنا، بچے کو قتل نہیں کرنا اور دشمن کے اموال اور ملکیتوں کو بلا وجہ نقصان نہیں پہنچانا وغیرہ۔ ایٹم بم کے استعمال میں ان میں سے کسی بات کا لحاظ نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے میری طالب علمانہ رائے میں اگر جنگ میں اسلامی اخلاقیات کا لحاظ رکھا جائے تو ایٹم بم ایک جائز ہتھیار نہیں ہے، لیکن ہم سب ایٹم بم کے بنانے پر زور دیتے ہیں اور ہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے اس لیے کہ جب دشمن کے پاس یہ ہتھیار موجود ہے تو ہمارے پاس اس کا موجود ہونا ضروری ہے ورنہ ہم دشمن سے مار کھا جائیں گے۔ اسے اضطراری حالت کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح حالتِ اضطرار میں جان بچانے کے لیے حرام کھانا جائز ہوجاتا ہے اسی طرح حالت جنگ میں جان بچانے کے لیے ایسے ہتھیار کا استعمال جائز بلکہ ضروری ہو جاتا ہے جو اسلامی اصولوں کی رو سے شاید جائز ہتھیار نہ ہو۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح ہتھیاروں کی جنگ ہے اسی طرح میڈیا کی جنگ بھی ہے بلکہ آج کے دور میں میڈیا کی جنگ کا دائرہ ہتھیاروں کی جنگ سے زیادہ وسیع ہے اور میڈیا ہتھیار سے زیادہ دشمن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں ابلاغ کے ذرائع کا وقت کی ضرورت کے مطابق استعمال ضروری ہے وہاں اضطرار اور حالت جنگ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آج عالمی سطح پر جس طرح ’’میڈیا وار‘‘ جاری ہے اور اسلام، حضرت محمدؐ کی ناموس و حرمت، اور اسلامی تعلیمات و روایات جس طرح بین الاقوامی پروپیگنڈے اور کردار کشی کے ہتھیاروں کی زد میں ہیں، اس کے پیش نظر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس ’’میڈیا وار‘‘ کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس میں پوری قوت کے ساتھ شریک ہوں اور اسی طرح اس میں حصہ لیں جس طرح غزوۂ خندق کے بعد ذرائع ابلاغ، ادب و خطابت اور شاعری کی جنگ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نامور صحابہ کرام حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت ثابت بن قیسؓ نے کردار ادا کیا تھا۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
فروری ۲۰۱۳ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter