Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

33 - 50
امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ
گزشتہ روز لاہور میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ایک مذاکرہ میں شرکت اور گفتگو کا موقع ملا جس کا عنوان تھا ’’امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوہ نبویؐ‘‘۔ جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ قیامت تک ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے اسوۂ حسنہ ہے اور ہر دور میں نسلِ انسانی اس سے راہ نمائی حاصل کرتی ہے۔ آج بھی نسلِ انسانی اور خاص طور پر امتِ مسلمہ کے لیے یہی راہ نمائی فلاح و نجات کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔
امتِ مسلمہ اس وقت جن مسائل میں الجھی ہوتی ہے ان کی فہرست بہت طویل ہے اور انہیں صرف شمار کیا جائے تو اس کے لیے خاصا وقت درکار ہے، لیکن ان میں سے چند بڑے بڑے مسائل کا ذکر مناسب سمجھتا ہوں تاکہ یہ بات ہمارے ذہنوں میں تازہ ہو جائے کہ ہمیں اسوۂ نبویؐ سے کیسے راہ نمائی حاصل کرنی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں بہت سی باتیں نسل انسانی اور امت کی راہ نمائی کے لیے فرمائی تھیں، ان میں سے دو باتوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل امر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی جاہلیت کی ساری قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ یعنی نسل انسانی کو جاہلیت کے دور سے نکال کر علم اور روشنی کی طرف لے جارہا ہوں اور اس کے ساتھ ایک جاہلی قدر یعنی باہمی قتل و قتال کا ذکر کر کے فرمایا کہ لا ترجعوا بعدی ضلالا میرے بعد پھر گمراہی کے دور کی طرف واپس نہ چلے جانا۔
ہمیں آج اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ جن جاہلی اقدار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پاؤں تلے روند کر علم اور روشنی پر مبنی سوسائٹی قائم کی تھی وہ جاہلی اقدار کہیں پھر تو ہمارے معاشرے میں واپس نہیں آگئیں؟ آج ہمارا حال یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ محبت اور عقیدت کے ساتھ تو کرتے ہیں اور ان کے مبارک تذکرے سے ثواب اور برکات بھی حاصل کرتے ہیں لیکن راہ نمائی کے لیے اوروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ عقیدت و محبت اور ثواب و برکات کے ساتھ ساتھ راہ نمائی کے لیے بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کریں اور ان جاہلی اقدار سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں جو آج پھر سے ہماری سوسائٹی میں عام ہوگئی ہیں، اور اس معاشرہ کے احیاء کے لیے محنت کریں جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تئیس سال کی محنت سے قائم کر کے دنیا کے سامنے بطور مثال پیش کیا تھا۔
بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اس لیے تباہی کا شکار ہوئیں کہ ان کے ہاں قانون کا نفاذ سب پر یکساں نہیں ہوتا تھا، غریب آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی لیکن معاشرہ کے بڑے لوگ اور وی آئی پی جرم کا ارتکاب کرتے تو وہ سزا سے بچ جاتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت حال کو امتوں کی تباہی کا باعث قرار دیا ہے۔ جبکہ ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ کوئی بڑا آدمی سنگین سے سنگین جرم بھی کرتا ہے تو اس کے لیے باقاعدہ گنجائشیں تلاش کی جاتی ہیں اور اسے سزا سے بچانے کے لیے پورا نظام متحرک ہو جاتا ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیانت و امانت کو مسلمان فرد اور امت کا فریضہ قرار دیتے ہوئے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ امانت اور دیانت جب دنیا سے ختم ہو جائے گی تو یہ قیامت کا پیش خیمہ ہوگا۔ بد دیانتی اور نا اہلی کی ایک صورت جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بیان فرمائی کہ جب معاملات اور اختیارات نا اہل لوگوں کے سپرد ہونے لگیں گے تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے، آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم سب کرپشن، نا اہلی اور بد دیانتی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اسے فخر کی بات سمجھا جاتا ہے۔ عالم اسلام میں عمومی طور پر ہمارا حال یہ ہے کہ کرپشن اور بد دیانتی کا دور دورہ ہے اور لوٹ کھسوٹ اور اختیارات کے غلط استعمال کے علاوہ تجارت اور کاروبار میں بھی ہماری ساکھ بری طرح مجروح ہو چکی ہے۔ تجارتی دنیا میں ہماری ساکھ سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اور بین الاقوامی برادری میں ہمارا اعتماد کسی طرح بحال نہیں ہو رہا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو دشمن کے مقابلہ میں ہر وقت تیار رہنے کا حکم دیا تھا اور جنگی قوت اس حد تک فراہم کرنے کا حکم دیا تھاکہ دشمن پر مسلمانوں کا رعب رہے، یعنی دنیا میں جنگی طاقت کا توازن مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے لیکن آج ہم سائنس، ٹیکنالوجی اور جنگی اسباب میں باقی دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ اس لیے آج ہم سے اسوۂ نبویؐ کا یہ تقاضہ ہے کہ ہم راہ نمائی کے اصل سرچشمہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کر کے دوسروں کی ذہنی غلامی سے نجات حاصل کریں، کرپشن اور نا اہلی کی دلدل سے نکلنے کی کوشش کریں، قانون کی سب کے لیے یکساں عملداری کا اہتمام کریں، سائنس اور ٹیکنالوجی میں دوسری قوموں سے آگے بڑھنے کو اپنا ہدف قرار دیں اور جاہلیت کی ساری قدروں کو پھر سے پاؤں تلے روندتے ہوئے صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدین کے دور کی مسلم سوسائٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے محنت کریں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۵ جنوری ۲۰۱۳ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter