Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

22 - 50
صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ
( دارالہدٰی، سپرنگ فیلڈ، ورجینیا، امریکہ میں ستمبر 2007ء کے دوران سیرت النبیؐ پر سلسلہ محاضرات۔)
رشتوں کا لحاظ رکھنا، رشتوں کو ملانا، رشتوں کو جوڑ کر رکھنا اور ان کا احترام کرنا، قرآن کریم نے اس کا حکم دیا ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے قول و عمل سے اس کی تعلیم دی ہے۔ قرآن کریم نے اپنے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کو صلہ رحمی سے تعبیر کیا ہے۔ گھر کی چار دیواری سے باہر کا دائرہ خاندان کا دائرہ ہوتا ہے جس میں باپ کی طرف کے رشتہ دار چچا، پھوپھیاں، چچا زاد، پھوپھی زاد ، اور اسی طرح ماں کی طرف کے رشتہ دار خالہ، ماموں، خالہ زاد اور ماموں زاد وغیرہ آتے ہیں۔ اسلام نے زندگی کے بہت سے معاملات میں اس دائرے کا لحاظ رکھنے کا حکم دیا ہے، قرآن کریم میں ہے وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَن یُّوْصَلَ وَیَْخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَیَخَافُوْنَ سُوْءَ الْحِسَابِ (سورۃ الرعد ۲۱) اور وہ لوگ جو ملاتے ہیں جس کے ملانے کو اللہ نے فرمایا ہے اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور برے حساب کا خوف رکھتے ہیں۔
اسلام میں صلہ رحمی کو مستقل نیکی قرار دیا گیا ہے۔ رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات بحال رکھنے کے حوالے سے، ان کے ساتھ امداد و تعاون کے حوالے سے، آپس میں ایک دوسرے کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھنے کے حوالے سے اور دیگر معاشرتی حوالوں سے جناب رسول اللہؐ نے بہت سے ارشادات فرمائے ہیں۔ مثلاً رسول اللہؐ نے زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات کے حوالے سے فرمایا کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے لوگوں پر خرچ کرتا ہے تو یہ اجر و ثواب کی بات ہے لیکن وہی خرچ اگر اپنے رشتے داروں پر کرے گا تو دوہرے اجر کا مستحق ہوگا۔ اسے صدقے کا اجر بھی ملے گا اور صلہ رحمی کا ثواب بھی حاصل ہوگا۔ جناب نبی کریمؐ نے صدقہ و خیرات میں رشتہ داروں اور قرابت داروں کو ترجیح دینے کاحکم دیا۔ محدثین فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے جو صدقہ و خیرات کے معاملے میں رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے اس کی دو وجوہات ہیں۔
1- پہلی وجہ تو یہ ہے کہ دو نیکیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں، ایک صدقہ و خیرات کی اور دوسری صلہ رحمی کی۔
2- دوسری وجہ یہ ہے کہ آدمی جب صدقہ و خیرات کرتا ہے تو کوشش ہوتی ہے کہ مستحق کو ملے۔ جبکہ رشتہ داروں کے عمومی حالات کے متعلق ہر آدمی جانتا ہے کہ کون شخص یا خاندان امداد کا زیادہ مستحق ہے۔
قریبی پڑوسیوں کی حالت کے متعلق بھی معلوم ہوتا ہے اور رشتہ داروں کے متعلق بھی، یا یوں کہہ لیں کہ ان کے حالات آدمی زیادہ آسانی سے معلوم کر سکتا ہے۔ رشتہ داروں کے علاوہ خرچ کرنے کا بھی ثواب ہے لیکن وہاں اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ معلوم نہیں کہ امداد کسی مستحق کو ملی ہے یا غیر مستحق کو۔ لیکن اپنے رشتہ داروں میں آدمی کو اندازہ ہوتا ہے کہ کس کی معاشی حالت کیا ہے اس لیے خرچ کرتے وقت آدمی زیادہ اطمینان و اعتماد کے ساتھ خرچ کرتا ہے۔یہی معاملہ پڑوسیوں کے ساتھ بھی ہے۔ چنانچہ صلہ رحمی کا نہ صرف حکم دیا گیا ہے بلکہ اسے مسلمان معاشرے کے بنیادی تقاضوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔ آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں رشتے، برادری اور تعلقات کے وہ سلسلے ختم ہو کر رہ گئے ہیں جو اچھے زمانوں میں ہوا کرتے تھے۔ لیکن اسلام نے بطور خاص رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور میل جول رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس آدمی نے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ میل جول حقارت کی وجہ سے ترک کیا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہے گا۔
جناب نبی کریمؐ اپنے رشتہ داروں اور میل جول والوں کے ساتھ حسن سلوک فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ اپنے خاندان کے ساتھ میل جول کا سلسلہ قائم رکھتے تھے اور معاشرتی حوالے سے عزت و احترام کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ اسلام کے اعلان کے بعد جن رشتہ داروں کے ساتھ رسول اللہؐ کا معاملہ تھا ان میں ایک حضورؐ کے چچا حضرت حمزہؓ تھے جو حضورؐ کے چچا بھی تھے اور رضاعی بھائی بھی تھے۔ حضورؐ نے بھی ثویبہؓ کا دودھ پیا تھا اور حضرت حمزہؓ نے بھی۔ حضرت حمزہؓ احد میں شہید ہوگئے تھے۔ فتح مکہ کے بعد حضرت حمزہؓ کا خاندان جب مدینہ منورہ آیا تو حضرت حمزہؓ کی بیٹی جوان تھیں۔ کسی نے نبی کریمؐ سے ذکر کیا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ کی چچازاد ہے آپ اسے اپنے نکاح میں لے لیں۔ اس پر رسول اللہؐ نے فرمایا خدا کے بندو! حمزہ میرے چچا بھی تھے اور میرے رضاعی بھائی بھی، اس حساب سے یہ میری بھتیجی لگتی ہے۔ یعنی نسب کے حوالے سےچچازاد جبکہ رضاعت کے حوالے سے بھتیجی۔ آپؐ نے فرمایا کہ میرے لیے اس کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت علیؓ حضورؐ کے چچازاد بھی تھے اور داماد بھی تھے۔
جناب رسول اللہؐ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ خود بھی حسن سلوک کرتے تھے اور دوسروں کے حسنِ سلوک کی تعریف بھی فرمایا کرتے تھے۔ رسول اللہؐ کے بڑے داماد حضرت ابوالعاصؓ بن ربیع تھے جو کہ حضرت زینبؓ کے خاوند تھے۔ حضورؐ کی چار بیٹیاں تھیں۔ حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ اور سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ۔ حضرت زینبؓ کے خاوند ابوالعاصؓ بن ربیع خاصا عرصہ مسلمان نہیں ہوئے اور کافروں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف لڑتے رہے۔ جنگ بدر میں بھی وہ کفارِ مکہ کی طرف سے لڑے اور مسلمان لشکر کے ہاتھوں قید ہوئے، بہت بہادر اور دلیر آدمی تھے۔ ایک موقع پر رسول اللہؐ نے ابوالعاصؓ سے فرمایا کہ میری بیٹی کو واپس بھیج دو، حضرت ابوالعاصؓ نے حضرت زینبؓ کو حضورؐ کے پاس بھیج دیا۔ اب حضرت زینبؓ مدینہ میں تھیں اور ابوالعاصؓ مکہ میں تھے۔ اس زمانے میں مسلمانوں اور کافروں کے نکاح ابھی قائم تھے۔ ایک موقع پر ابوالعاصؓ گرفتار ہو کر بطور مجرم مدینہ منورہ میں حضورؐ کی قید میں آگئے، اس دور میں قید خانے تو ہوتے نہیں تھے اس لیے قیدی کو لا کر مسجد نبوی میں ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا۔ حضورؐ مناسب موقع پر اس کے متعلق فیصلہ فرما دیتے کہ اسے فدیہ لے کر چھوڑنا ہے، قتل کرنا ہے یا پھر غلام بنانا ہے۔ مجرم ایک آدھ دن وہیں بندھا رہتا تھا۔ ابوالعاصؓ کو بھی اسی طرح ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا کہ وہ دشمن تھے اور جنگی قیدی تھے۔ نبی کریمؐ کا عام طورپر معمول یہ تھا کہ فجر کی نماز کے بعد مجرم کا فیصلہ کرتے تھے، چنانچہ آپؓ نے فجر کی نماز پڑھائی۔ حضرت زینبؓ کو کسی طرح پتہ چل گیا کہ میرا خاوند قید ہو کر مسجد نبوی میں ستون کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ ابوداؤد شریف کی روایت ہے کہ فجر کی نماز ہو چکی تھی حضرت زینبؓ اپنے حجرے سے نکلیں اور مسجد نبوی کے دروازے کے ساتھ آکر کھڑی ہوگئیں۔ حضورؐ جونہی نماز پڑھا کر نمازیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے اور ابھی مقدمہ شروع ہونے والا تھا کہ حضرت زینبؓ نے دروازے کے اندر جھانک کر کہا یا رسول اللّٰہ قد أجرت ھذا الاسیر۔ میں نے اس قیدی کو پناہ دے دی ہے۔
اسلام کا ضابطہ یہ ہے کہ قیدی مجرم ہو تو جس طرح فوج کا سپہ سالار کسی دشمن کو پناہ دے سکتا ہے اسی طرح ایک عام شہری بھی پناہ دے سکتا ہے۔ اگر عام شہری بھی کسی کافر کو پناہ دے دے تو اس کی جان بخشی ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز نہیں رہتا۔ حضورؐ مسکرائے اور فرمایا قد أجرنا من أجرت تم نے پناہ دے دی ہے تو ہم نے بھی پناہ دے دی ہے۔ ابوالعاصؓ بن ربیع آزاد ہو کر سیدھا مکہ گئے اور جا کر کہا کہ لوگو! میں وہیں مدینہ میں مسلمان ہوگیا تھا لیکن میں نے وہاں پر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان اس لیے نہیں کیا کہ تم یہ نہ کہو کہ ابوالعاص قید یا قتل سے بچنے کے لیے مسلمان ہوگیا ہے۔ اس لیے یہاں مکہ میں تمہارے سامنے اعلان کر رہا ہوں اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمد عبدہٗ ورسولہ۔ یہ اعلان کرنے کے بعد ابوالعاصؓ نے کہا کہ جس کا میرے ساتھ کوئی حساب کتاب ہے وہ میرے ساتھ معاملہ کر لے۔ اور میں مدینہ جا رہا ہوں جس کو مجھے روکنا ہے وہ مجھے روک کر دیکھ لے۔ جناب نبی کریمؐ نے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر خطبے کے دوران ابوالعاصؓ کی تعریف کی، فرمایا وہ بہت اچھا داماد ہے اس نے میرے ساتھ جو بات بھی کی پکی کی جو وعدہ بھی کیا پورا کیا۔ چنانچہ جناب رسول اللہؐ اپنے رشتہ داروں کا لحاظ بھی کرتے تھے اور جہاں تعریف کرنی ہوتی وہاں تعریف بھی کرتے تھے۔
حضرت عثمانؓ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہو سکے اس وجہ سے کہ حضرت عثمانؓ کے نکاح میں جناب نبی کریمؐ کی دوسری بیٹی حضرت رقیہؓ تھیں۔ حضرت رقیہؓ سخت بیماری کی حالت میں گھر پر تھیں اور حضرت عثمانؓ کے علاوہ کوئی ان کی تیمار داری کرنے والا نہیں تھا۔ بدر کے معرکے میں جانے لگے تو حضرت عثمانؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ میں بھی جنگ میں شریک ہونا چاہتا ہوں، حضورؐ نے انہیں منع کرتے ہوئے فرمایا کہ تم گھر میں رہو اس لیے کہ رقیہؓ بیمار ہے اور کوئی اسے پانی دینے والا بھی نہیں ہے۔ حضرت عثمانؓ نے اصرار کیا تو حضورؐ نے فرمایا کہ جو ثواب وہاں جنگ میں شریک ہونے والوں کو ملے گا تمہیں یہاں گھر میں رہ کر ملے گا۔ جناب نبی کریمؐ نے سخت ترین جنگی حالات میں بھی اپنی بیٹی کی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے اپنے داماد حضرت عثمانؓ کو جنگ میں جانے سے روک دیا۔ چنانچہ اسی بیماری کے دوران حضرت رقیہؓ کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد حضورؐ نے اپنی تیسری بیٹی ام کلثوم حضرت عثمانؓ کے نکاح دے دی، حضرت ام کلثومؓ کا بھی بعد میں انتقال ہوگیا۔ اس پر حضورؐ نے اس پر ایک ایسا جملہ فرمایا جو کوئی خسر کم ہی اپنے داماد کے متعلق کہتا ہے۔ فرمایا، عثمانؓ میری اور کوئی بیٹی تمہارے لیے دستیاب نہیں ہے، اگر میری سو بیٹیاں بھی ہوتیں تو ایک ایک کر کے تمہارے نکاح میں دے دیتا۔ یہ ایک خسر کا اپنے داماد پر بے انتہا اعتماد کا اظہار تھا۔ تو جناب نبی کریمؐ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا اور عزت و احترام کا معاملہ فرماتے تھے۔
حضرت حسان بن ثابتؓ نے اپنی رزمیہ شاعری کے ذریعے کفارِ مکہ کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا تو اس پر حضورؐ نے ان سے کہا کہ اگر تم قریش کو اپنے اشعار میں برا بھلا کہو گے تو اس کی زد میں میرے آباؤ اجداد بھی آئیں گے۔ یعنی حضورؐ نے یہ بات پسند نہ کی کہ کوئی ان کے آباؤ اجداد کو اور ان کے نسب میں سے کسی کی مذمت کرے۔ واقعہ یوں ہوا کہ غزوۂ خندق کے بعد جب مشرکین مکہ نے دیکھا کہ ہم لڑائی کے میدان میں شکست نہیں دے پا رہے تو انہوں نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا۔ اسلام اور مسلمانوں کی مذمت میں شاعروں نے اشعار کہنے شروع کر دیے، خطیبوں نے خطبے دینے شروع کر دیے اور مسلمانوں کی کردار کشی کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ جب آدمی میدان میں مقابلہ نہ کر سکے تو پھر زبان سے سارا غصہ نکالتا ہے، قریش نے بدر میں شکست کھائی تھی، احد میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے اور پھر خندق میں اپنا پورا زور لگانے کے باوجود ناکام ہوگئے تھے۔ خندق قریش کے ساتھ مسلمانوں کا آخری معرکہ تھا جس کے بعد حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ آج کے بعد انہیں ہم پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہوگی، اب جب بھی جائیں گے ہم جائیں گے۔ فرمایا اب یہ لوگ ہمارے خلاف تلوار کی جنگ نہیں لڑیں گے بلکہ یہ ہمارے خلاف زبان کی جنگ لڑیں گے۔ یہ لوگ ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کریں گے، شعر کہیں گے، خطبے دیں گے، عرب قبائل کو ہمارے خلاف بھڑکائیں گے اور ہمارے خلاف نفرت و غصے کی فضا گرم کریں گے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ حضورؐ نے در اصل فرمایا کہ یہ لوگ ہمارے خلاف میڈیا کی جنگ لڑیں گے، یہ ہمارے خلاف لوگوں کو اشتعال دلائیں گے اور ہماری کردار کشی کریں گے۔ مسجد نبوی میں صحابہ کرامؓ کا مجمع تھا آپؐ نے فرمایا کہ تلوار کی جنگ میں تم لوگ میرے ساتھ تھے لیکن اس زبان کی جنگ میں کون میرے ساتھ ہوگا؟ حافظ ابن عبد البر نقل کرتے ہیں کہ تین آدمی کھڑے ہوئے، تینوں انصاری تھے۔
حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت کعب بن مالکؓ۔ یہ تینوں شاعر کھڑے ہوگئے کہ یا رسول اللہ! یہ جنگ ہم لڑیں گے۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نے تو اپنی زبان پکڑ کر کہا کہ یا رسول اللہؐ ! میں اپنی اس زبان کے ساتھ ان کو چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا۔ تینوں میں کام کی تقسیم کار اس طرح تھی کہ حسان بن ثابتؓ جناب رسول اللہؐ کی مدح بیان فرماتے تھے اور مشرکین جو ہجو کرتے تھے اس کا جواب دیتے تھے۔ حضرت کعب بن مالکؓ کفار کی مذمت کیا کرتے تھے کہ مشرک ایسے ہوتے ہیں کافر ایسے ہوتے ہیں اور ان میں یہ یہ اخلاقی خرابیاں ہوتی ہیں۔ جبکہ عبد اللہ بن رواحہؓ کی شاعری رزمیہ تھی کہ مار دیں گے، تباہ کر دیں گے، جڑ سے اکھاڑ دیں گے وغیرہ۔ بلکہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت میں آتا ہے کہ عمرۃ القضا کے موقع پر جب حضورؐ مکہ میں داخل ہو رہے تھے تو عبد اللہ بن رواحہؓ کے ہاتھ میں حضورؐ کی اونٹنی کی لگام تھی اور وہ اپنے اشعار پڑھتے جا رہے تھے۔ یہ واقعہ ۷ھ میں عمرۃ القضاء کا ہے۔ وادی سے نیچے اتر رہے تھے حضورؐ کی اونٹنی کی لگام عبد اللہ بن راوحہؓ کے ہاتھ میں تھی اور وہ اپنے جذبے سے اشعار پڑھتے جا رہے تھے کہ ہم کافروں کو تباہ کر دیں گے، اڑا دیں گے، چیرپھاڑ کر رکھ دیں گے۔ حضرت عمرؓ نے دیکھا تو قریب آکر منہ کے اشارے سے کہا کہ خاموش ہو جاؤ سامنے دیکھو کعبہ نظر آرہا ہے اور تم یہ کیا کہہ رہے ہو۔ جناب رسول اللہؐ نے حضرت عمرؓ کا عبد اللہؓ کو اس طرح روکنا دیکھ لیا۔ فرمایا دعہ یا عمر! چھوڑو اسے اور پڑھنے دو۔ خدا کی قسم اس کے اشعار کافروں کے سینوں میں تیروں سے زیادہ نشانے پر لگ رہے ہیں۔
اسی طرح بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کی خلافت کا زمانہ تھا، حضرت حسان بن ثابتؓ مسجد نبوی میں بیٹھے تھے اور رسول اللہؐ کی مدح میں بڑے مزے سے اشعار پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ پاس سے گزرے تو گھور کے دیکھا کہ خدا کے بندے مسجد میں بیٹھے ہو، دیکھ بھال کر یا آہستہ پڑھو۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نے فوراً کہا کہ امیر المؤمنین! کیوں گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں، میں اسی مسجد میں یہ اشعار پڑھا کرتا تھا اور رسول اللہؐ مجھے داد دیا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ہی حضرت ابو ہریرہؓ بیٹھے ہوئے تھے، حضرت حسان بن ثابتؓ نے کہا کہ ابوہریرہ! تم میرے گواہ ہو کہ اسی مسجد میں حضورؐ بھی ہوتے تھے باقی صحابہ بھی ہوتے تھے اور میں کفار کی ھجو کا جواب دیا کرتا تھا اور حضورؐ کی مدح کیا کرتا تھا حضورؐ اس پر خوش ہوتے تھے مجھے داد دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ حسان ! اور اشعار کہہ تمہاری پشت پر روح القدس کھڑا ہے۔ پھر حضرت حسانؓ نے حضرت ابو ہریرہؓ سے پوچھا، کیوں ابو ہریرہ! یہ بات اسی طرح ہے جیسے میں کہہ رہا ہوں؟ حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ ہاں یہ بات اسی طرح ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ خاموش ہو کر وہاں سے چل دیے۔
میں یہ بات عرض کر رہا تھا کہ حضرت حسان بن ثابتؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں یہ جنگ ایسی لڑوں گا اور ان قریشیوں کی ایسی مذمت کروں گا کہ دنیا یاد کرے گی۔ اس پر رسول اللہؐ نے ایک جملہ فرمایا فیھم نسبی یا حسان! اگر تم ان کی مذمت کرو گے تو اس میں میرے خاندان اور میرے نسب کے لوگ بھی آئیں گے جو قابل احترام ہیں، ان کے ساتھ تم کیا معاملہ کرو گے؟ حضرت حسانؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں مذمت کرتے ہوئے آپ کے نسب کو ایسے درمیان سے نکال دوں گا جیسے آٹے میں سے بال نکالا جاتا ہے۔ یعنی میں آپ کے نسب کا لحاظ رکھوں گا اور اس پر کوئی زد نہیں آنے دوں گا۔ پھر حضورؐ نے حضرت حسانؓ سے کہا کہ ہمارے جو نسب نامے ہیں ان کا ابوبکرؓ کو سب معلوم ہے ان سے جا کر یہ معلوم کر لو کہ کس کے ساتھ میرا کیا رشتہ ہے۔ چنانچہ حضرت حسان بن ثابتؓ حضرت صدیق اکبرؓ کے پاس گئے اور ساری تفصیل معلوم کی پھر آکر رسول اللہؐ کو بتایا کہ میں نے آپ کا نسب سیکھ لیا ہے، اب آپ تسلی رکھیں میں ھجو بھی کروں گا اور آپ کے نسب کو بھی بچاؤں گا۔ چنانچہ محدثین کرام فرماتے ہیں کہ اپنے خاندان والوں کی عزت کا لحاظ رکھنا بھی سنت ہے۔ خاندان کے حوالے سے جناب نبی کریمؐ کا اپنا طرز عمل بھی یہی تھا اور دوسروں کو تلقین بھی یہی تھی۔
خاندان میں سب سے بڑا حق ماں باپ کا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ مسلمان ہوئے تو ان کی والدہ ناراض ہوگئیں کہ میرا بیٹا مسلمان کیوں ہوا ہے، اپنے بیٹے سے کہاکہ تم کلمہ چھوڑو ورنہ میں تمہارے ساتھ بولنا چھوڑ دوں گی۔ حضرت سعدؓ پریشان ہوگئے اور حضورؐ کی خدمت میں جا کر عرض کیا کہ یارسول اللہؐ میری ماں تو میرے کلمہ پڑھنے پر ناراض ہوگئی ہے۔ آپؐ نے انہیں اپنی ماں کے احترام کی تلقین کی۔ جب ماں نے کچھ دن دیکھا کہ بیٹا کلمہ نہیں چھوڑا رہا تو ایک دن گھر سے نکل کر کھلے میدان میں جا کر بیٹھ گئی اور اپنے بال بکھیر لیے، اعلان کر دیا کہ میں اس وقت تک نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی اور نہ سائے میں بیٹھوں گی جب تک تم کلمہ نہیں چھوڑو گے۔ اب سعدؓ مزید پریشان ہوگئے کہ یا اللہ یہ کیا معاملہ ہوا۔ ماں دھوپ میں بیٹھی ہوئی ہے نہ سائے میں بیٹھتی ہے نہ کھانا کھاتی ہے نہ پانی پیتی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایاکہ والدین کی اطاعت ضروری ہے لیکن وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا (سورۃ لقمان: ۱۵) اور اگر تجھ پر (والدین) اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک بنائے جس کو تو جانتا بھی نہ ہو تو ان کا کہنا نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ نیکی سے پیش آنا۔ یعنی اگر ماں باپ کفر اور شرک کا حکم دیں پھر ان کی اطاعت لازم نہیں ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک میں کمی نہ آئے۔ باپ اگر کفرا ور گناہ کی بات کرتا ہے تو اس کی وہ بات مت مانو لیکن دنیا کے معاملات یعنی خدمت و احترام، حسن سلوک اور تعاون میں کمی نہ آئے خواہ وہ باپ کافر اور مشرک ہی کیوں نہ ہو۔ اسے اسلام نے مستقل نیکی شمار کیا ہے۔
خاندانی زندگی کے حوالے سے جناب نبی کریمؐ کی تعلیم یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ رشتوں کو جوڑ کر رکھو، آپس میں میل جول پیدا کرو، تعاون کی فضا قائم کرو اور ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کا سلسلہ رکھو۔ جناب رسول اللہؐ نے فرمایا صِل من قطعک کہ کوئی تم سے تعلق توڑے تب بھی اس سے تعلق جوڑ کر رکھو۔ آپؐ نے یہ تعلیم دی کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرو، اس سے خاندان میں جوڑ پیدا ہوتا ہے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور ضرورت کے وقت دوسروں کی مدد اور تعاون میسر ہوتا ہے۔ یہ اسلام کی تعلیمات ہیں اور جناب نبی کریمؐ کی سنت مبارکہ ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
دارالہدٰی، سپرنگ فیلڈ، ورجینیا، امریکہ
تاریخ اشاعت: 
ستمبر ۲۰۰۷ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter