Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

37 - 50
نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے
27 مارچ جمعرات کو گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں ’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کے زیر اہتمام نعتیہ شاعری کے حوالہ سے ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں پروفیسر ڈاکٹر سعد صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف، پروفیسر حافظ سمیع اللہ فراز، پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک، مولانا محمد یوسف خان، حافظ محمد عمار خان ناصر، اور دوسرے مقررین کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا اور سیرت نبویہ علی صاحبہا التحیۃ والسلام کے حوالہ سے کچھ معروضات پیش کیں جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ نثر میں ہو یا نظم میں، باعث برکت و سعادت ہے اور ذکر رسولؐ کے ہزاروں پہلو ہیں جن پر مختلف حوالوں سے علمی کاوشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ نعتیہ شاعری کے بعض پہلوؤں پر میرے پیش رو مقررین نے خوبصورت خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے۔ میں اس کی مقصدیت کے حوالہ سے عرض کرنا چاہوں گا کہ ذکر رسولؐ کا مقصد اپنے جذبات اور محبت و عقیدت کا اظہار تو ہوتا ہی ہے کہ ایک مسلمان اپنی نسبت کا اظہار بھی کرتا ہے اور محبت و عقیدت بھی پیش کرتا ہے۔ لیکن نعتیہ شاعری کا ایک اہم پہلو ہمارے پیش نظر ضرور ہونا چاہیے کہ خود جناب نبی اکرمؐ نے اس کا کس حوالہ سے تقاضہ کیا تھا؟ روایات میں آتا ہے کہ غزوۂ احزاب کے بعد آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ اب قریش کو ہم پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوگی، البتہ وہ خطابت و شعر کا محاذ گرم کریں گے اور تمہارے خلاف عربوں کو بھڑکائیں گے۔ یہ جنگ جو زبان کے ساتھ لڑی جائے گی اس میں کون کون سامنے آئے گا؟ اس پر حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ سامنے آئے جو اپنے وقت کے بڑے شعراء تھے۔ جبکہ خطابت کے محاذ پر حضرت ثابت بن قیسؓ نے مورچہ سنبھالا اور شعر و خطابت کی یہ جنگ کامیابی کے ساتھ لڑی گئی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ اسلام کے دفاع کی جنگ تھی اور جناب رسول اللہؐ کی عزت و ناموس کے تحفظ کی جنگ تھی۔ ان خطباء و شعراء نے حضورؐ کی مدح اور اسلام کی خوبیوں کے بیان کے ساتھ ساتھ کفار کی طرف سے کی جانے والی ھجو اور اٹھائے جانے والے اعتراضات اور شکوک و شبہات کا جواب دیا اور کفار کے پروپیگنڈے کا رخ پھیر دیا۔ آج بھی ہمیں یہی صورت حال درپیش ہے۔ عالمی سطح پر اسلامی احکام و قوانین، قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی پر طرح طرح کے اعتراضات دہرائے جا رہے ہیں۔ اور اسلام کے ساتھ ساتھ دیندار لوگوں کی کردار کشی کی مہم بھی ہر سطح پر جاری ہے۔ ان حالات میں نعتیہ شاعری کو بھی اسلام کے دفاع اور حضورؐ کی حرمت و ناموس کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور حالات کے تقاضے کے پیش نظر اس پہلو کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
دوسری بات جو میں اس ضمن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نعتیہ شاعری میں اظہار جذبات کے لیے جس احتیاط کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اس کی ضرورت آج زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ مثلاً حضرت حسان بن ثابتؓ کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ جب ان کے سامنے حضورؐ نے قریش مکہ کے شاعروں کی طرف سے کی جانے والی ھجو کا ذکر کیا تو انہوں نے اپنی زبان ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ میں اس زبان کے ساتھ ان کو چیر کر رکھ دوں گا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ میں بھی قریش میں سے ہوں، میرے نسب کا کیا کرو گے؟ یعنی قریش کی مذمت کرتے ہوئے مجھے زد میں آنے سے کیسے بچاؤ گے؟ حسان بن ثابتؓ نے کہا کہ آپ کو درمیان سے اس طرح نکال لوں گا جیسے آٹے میں سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ جناب نبی اکرمؐ نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مل کر میرے نسب کی تفصیلات معلوم کرلو تاکہ تم قریش کی ھجو کا جواب دیتے وقت اس کا لحاظ کر سکو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ نے اس بات کی تلقین فرمائی ہے کہ ان کی مدح و نعت میں ادب و احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
اس سلسلہ میں مجھے اپنے طالب علمی کے دور کا ایک واقعہ نہیں بھولتا کہ گوجرانوالہ میں بہت سے شعراء کرام تھے جو ادبی اور شعری محفلوں کا اہتمام کیا کرتے تھے جن میں اثر لدھیانوی، عزیز لدھیانوی، بیکس فتح گڑھی، راشد بزمی، اور دوسرے شعراء شامل تھے۔ یہ سب اب مرحوم ہو چکے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ یہ 1964ء اور 1965ء کے لگ بھگ کی بات ہے، میں بھی ان کی محفلوں میں جایا کرتا تھا ۔ میں شعر کہتا تو نہیں تھا البتہ ادبی محفلوں کا ذوق ضرور رکھتا تھا، ان دنوں پل لکڑ والا کے قریب ایک بزرگ ٹیلر ماسٹر تھے اور شہید جالندھریؒ کے نام سے شعر گوئی کا ذوق رکھتے تھے۔ ان کے ہاں شعراء کی محفل تھی اور مولانا ظفر علی خان مرحوم کی مشہور نعت کا مصرعہ
؂     دل زندہ جس سے ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
کو طرح مصرعہ بنا کر بہت سے شعراء نے اس محفل میں نعتیہ کلام پیش کیا مگر شہید جالندھری مرحوم نے اس مصرع سے اختلاف کیا اور کہا کہ ’’تمہی تو ہو‘‘ کا انداز خطاب بہت زیادہ بے تکلفانہ ہے اور میرا جی نہیں چاہتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لہجے میں خطاب کروں۔ انہوں نے اپنی نظم یا نعت میں اسے ’’آپ ہی تو ہیں‘‘ کے جملہ سے تبدیل کر دیا اور اس کے مطابق آپؐ کی بارگاہ میں ہدیہ نعت پیش کیا۔ یہ بات انہوں نے اس انداز سے کہی کہ میرے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی اور نصف صدی گزرجانے کے باوجود ان کا انداز بلکہ ان کا سراپا اب تک ذہن میں نقش ہے۔ مجھے ان کی یہ بات بہت اچھی لگی اور میں ایسے موقع پر اس کا تذکرہ ضرور کیا کرتا ہوں۔
اس لیے گزارش ہے کہ نعتیہ شاعری میں اسلام اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منفی پراپیگنڈے کے جواب کا پہلو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ ادب و احترام کے تقاضوں کو بھی پوری طرح ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے کہ     ؂
ادب گاہیست زیر آسمان از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۱ اپریل ۲۰۱۴ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter