Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

45 - 50
حکمت عملی کا جہاد
(گزشتہ دنوں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام آسٹریلیا مسجد لاہور میں منعقدہ سیرت کانفرنس میں ’’منافقین کے خلاف جہاد کی نبویؐ حکمت عملی‘‘ کے موضوع پر خطاب کا موقع ملا، اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔)
بعد الحمد الصلوٰۃ۔ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالہ سے ایک پہلو پر آج چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا، قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے جناب نبی اکرمؐ کو حکم دیا يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْـهِـمْ۔ (سورہ التحریم ۶۶ ۔ آیت ۹) کہ اے نبیؐ!کافروں اور منافقین کے ساتھ جہاد کریں اور ان پر سختی کریں۔ چنانچہ آپؐ نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ کے دس سالہ دور میں کافروں کے خلاف مسلسل جہاد کیا۔ طبقات ابن سعدؒ کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرمؐ کے غزوات کی تعداد ستائیس ۲۷ ہے جو دس سال کے اندر ہوئے اور سارے جہاد کفار کے خلاف تھے جبکہ یہ بات غور طلب ہے کہ منافقین کے خلاف کون سا جہاد ہوا؟ اس لیے کہ دس سالہ مدنی دور میں منافقوں کے خلاف ایک بار بھی ہتھیار نہیں اٹھایا گیا، وہ مدینہ منورہ میں رہے اور سارے معاملات میں شریک رہے، شرارتیں بھی کرتے رہے اور بڑے بڑے فتنے انہوں نے کھڑے کئے مگر ایک بار بھی ان کے خلاف تلوار استعمال نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ جناب نبی اکرمؐ سے بعض سرکردہ منافقوں کو قتل کرنے کی اجازت مانگی گئی مگر جناب سرور کائنات ؐنے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
منافقوں نے اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف جو بڑی بڑی حرکتیں اور شرارتیں کیں ان میں سے چند کا ذکر کروں گا۔ غزوۂ احد کے موقع پر حضورؐ ایک ہزار کا لشکر لے کر احد کے دامن میں آئے تھے جن میں سے تین سو افراد رئیس المنافقین عبد اللہ بن أبی کی سربراہی میں میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے، یہ صریح غداری تھی اور وفاداری سے انحراف تھا۔ بعد میں وہ میدان احد میں مسلمانوں کو پہنچنے والے نقصانات پر طعنے بھی دیتے رہے جن کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ غزوۂ احدسے فارغ ہونے کے بعد خود مسلمانوں میں سے ایک گروہ نے اس بات کی تحریک کی کہ میدان احد سے واپس آجانے والے ان منافقوں کے خلاف جنگ لڑنی چاہئے اور جب اس پر باہمی اختلاف رائے ہو گیا تو قرآن کریم نے یہ فرما کر اس جنگ سے روک دیا کہ فَمَا لَكُمْ فِى الْمُنَافِقِيْنَ فِـئَـتَـيْنِ (سورہ النساء ۴ ۔ آیت ۸۸) کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہوں میں کیوں بٹ گئے ہو؟ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو، اللہ تعالیٰ نے منافقین کی حرکات کا قرآن میں تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا، ان کی مذمت بھی کی مگر مسلمانوں کو ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت نہیں دی۔
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر قذف و تہمت کے حوالہ سے عبد اللہ بن أبی اور دیگر منافقین کا طرز عمل سب کے سامنے ہے، انہوں نے ایک ماہ تک مدینہ منورہ میں فتنہ بپا کیے رکھا۔ خود جناب رسول اللہؐ وحی آنے تک پریشانی کا شکار رہے، مسجد نبویؐ میں اس مسئلہ پر صحابہ کرامؓ میں جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ قرآن کریم میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی پاکدامنی کا اعلان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کی مذمت کی مگر ان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے گئے۔ حتیٰ کہ حضرت سعد بن معاذؓ نے کھلے اجتماع میں عبداللہ بن أبی کو قتل کردینے کی بات کی مگر اس کی اجازت نہیں دی گئی۔
ایک موقع پر عبد اللہ بن أبی اور اس کے چند ساتھیوں نے سفر کے دوران مہاجرین کے خلاف باتیں کیں اور یہاں تک کہہ دیا کہ اب مدینہ منورہ واپس پہنچنے پر لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْـهَا الْاَذَلَّ (سورہ المنافقون ۶۳ ۔ آیت ۸) کہ ہم میں سے جو طاقت ور ہو گا وہ دوسروں کو مدینہ منورہ سے نکال دے گا۔ حضرت زید بن ارقم ؓ یہ باتیں سن رہے تھے، انہوں نے حضورؐ کو بتایا تو طلب کرنے پر منافقین نے آپؐ کے سامنے اتنی قسمیں کھائیں کہ آقائے نامدارؐ نے حضرت زید بن ارقمؓ کو ڈانٹ دیا اور ان کی رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس پر قرآن کریم میں سورۃ المنافقون نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ منافقوں کی قسمیں جھوٹی ہیں اور زید بن ارقمؓ نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہے۔
یہ چند شرارتیں ہیں جو میں نے ذکر کی ہیں جبکہ مدینہ منورہ میں منافقوں نے شرارتوں اور فتنوں کا ماحول مسلسل قائم رکھا۔ حتیٰ کہ غزوۂ تبوک سے واپسی پر ایک جگہ چودہ منافقین گھات لگائے کھڑے تھے جنہوں نے جناب رسول اللہؐ کے وہاں سے گزرنے پر ان کو شہید کرنے کے ارادے سے گھیر لیا، انہوں نے اپنے منہ لپیٹ رکھے تھے۔وہ اپنے ناپاک منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکے مگر حضورؐ نے ان سب کو پہچان لیا۔ وہ سب کے سب مدینہ منورہ میں رہنے والے منافقین تھے، ان کے نام آپؐ نے اپنے ساتھی حضرت حذیفہؓ کو اس شرط کے ساتھ بتادیے کہ وہ کسی اور کو اس سے آگاہ نہیں کریں گے۔ چنانچہ حضرت حذیفہؓ نے ان ناموں کو مرتے دم تک راز میں رکھا جس کی وجہ سے وہ صاحب سر رسول اللّٰہ یعنی رسول اللہؐ کے رازدار کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں۔
اس قسم کی حرکتوں پر بعض منافقوں بالخصوص عبد اللہ بن ابی کو قتل کرنے کی اجازت مانگی گئی اور اجازت مانگنے والوں میں حضرت عمرؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ بھی شامل ہیں،مگر آنحضرتؐ نے اجازت دینے سے انکار فرما دیا۔ اور اس کی وجہ یہ ارشاد فرمائی کہ
’’اس طرح لوگ یہ کہیں گے کہ محمدؐ نے اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘
ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ قرآن کریم میں منافقوں کے خلاف جہاد کرنے کے صریح حکم کے باجود عملی صورت حال یہ رہی کہ حضورؐ نے نہ ان کے خلاف تلوار اٹھائی اور نہ ہی ان میں سے کسی کو قتل کرنے کی اجازت دی۔ حتیٰ کہ آپؐ کو شہید کرنے کیلئے گھیر لینے والے چودہ منافقوں کے ناموں کو بھی خفیہ رکھا جن کا حضرت حذیفہؓ کے سوا کسی کو پتہ نہیں چل سکا، یہ وہ کلمہ گو کافر ہیں جنہیں خود قرآن کریم نے کافر قرار دیا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں تو اس کی بنیاد کسی استدلال و استنباط پر ہوتی ہے جس میں خطا کا احتمال بھی موجود ہوتا ہے۔ لیکن ان کلمہ گو منافقوں کو قرآن کریم نے وماھم بمؤمنین اور انھم لکاذبون کہہ کر کافر قرار دیا مگر انہیں قتل کرنے اور ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دی اس لیے کہ وہ کافر ہونے کے باوجود ’’کلمہ گو‘‘ تھے۔
سوال یہ ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے ان کلمہ گو کافروں کے خلاف جنگ نہیں لڑی اور ان میں سے کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی تو منافقوں کے خلاف جہاد کرنے اور ان پر سختی کرنے کے اس حکم کا کیا ہوا جو قرآن کریم میں آج بھی موجود ہے؟ کیا یہ سوچا بھی جا سکتا ہے کہ حضورؐ نے اس قرآنی حکم پر عمل نہیں کیا؟ ایسا نہیں ہے بلکہ رسول اکرمؐ نے اس حکم پر پورا عمل کیا، منافقوں کے خلاف جہاد کیا، لیکن وہ جہاد تلوار کا نہیں بلکہ حکمت عملی کا تھا جس کے نتیجے میں حضورؐ کے دور میں ہی یہ منافقین ختم ہو گئے تھے۔ چنانچہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان منافقوں کا تاریخ میں کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔
یہ حکمت عملی کا جہاد کیا تھا اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلہ میں پہلی بات تو وہی ہے جومیں نے ذکر کی ہے کہ جناب نبی اکرمؐ دنیا کو یہ تاثر اور پیغام نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں اس لئے کہ اس سے اسلام کی دعوت کو نقصان پہنچتا ہے اور باقی دنیا کے سامنے مسلمانوں کا تعارف صحیح نہیں رہتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جناب نبی اکرم ؐ کی حکمت عملی یہ تھی کہ منافقین کا یہ گروہ مدینہ منورہ میں اپنا الگ تشخص قائم نہ کر سکے، اس کا امکان سب سے پہلے غزوہ احد کے موقع پر پیدا ہوا تھا جب منافقین تین سو کی تعداد میں الگ ہو گئے تھے۔ ایک ہزار میں سے تین سو کا الگ ہو جانا ان کی طرف سے قوت کا اظہار تھا اور اپنے الگ تشخص کی علامت بھی تھی۔ اگر اس موقع پر ان کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے جاتے تو مدینہ منورہ کے اندر ایک مستقل محاذ قائم ہو جاتا اور مسلم سوسائٹی لوگوں کی نظروں میں دو حصوں میں بٹ جاتی۔ آنحضرتؐ نے اس صورت حال سے بچنے کیلئے ان کی اتنی بڑی حرکت کو نظر انداز کر دیا اور ان کے خلاف کوئی عملی کاروائی نہیں کی گویا ان کے اس وار کو حکمت عملی سے ناکام بنا دیا۔
دوسرا موقع ’’مسجد ضرار‘‘ کی تعمیر کا تھا۔ یہ بھی منافقین کی طرف سے اپنے الگ تشخص کے اظہار کی کوشش تھی جسے قرآن کریم نے كُفْرًا وَّتَفْرِيْقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ (سورہ التوبہ ۹۔ آیت ۱۰۷) سے تعبیر کیا ہے۔حضورؐ نے کمال حکمت عملی سے یہ مسجد تو ختم کر دی مگر ان منافقین کے خلاف کوئی ایکشن نہ لے کر ان کے الگ تشخص اور گروہ بندی کے امکانات بھی ناکام بنا دیے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاد جس طرح تلوار سے ہوتا ہے اسی طرح حکمت عملی سے بھی ہوتا ہے۔ جہاں تلوار کی ضرورت ہے وہاں ہتھیار اٹھانا جہاد ہے اور جہاں حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں حکمت و دانش سے کام لینا اور ہتھیار نہ اٹھا نا بھی جہاد ہی کہلاتا ہے۔ آج کے دور میں اور دنیا کے موجودہ حالات میں اس حکمت نبویؐ کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۲ جنوری ۲۰۱۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter