Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

49 - 50
ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ
ربیع الاول کے دوران مختلف مقامات پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں منعقد ہونے والے اجتماعات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ گیارہ ربیع الاول کو 11بجے پی سی لاہور میں وفاقی وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام سالانہ بین الاقوامی سیرت کانفرنس کی پہلی نشست میں شرکت کی۔ بعد نماز ظہر جامعہ فتحیہ اچھرہ میں ’’نبی اکرمؐ کی خاندانی زندگی‘‘ کے عنوان پر گفتگو ہوئی۔ بعد نماز مغرب مسجد تقویٰ پنجاب کالونی غازی روڈ لاہور میں ’’ذرائع ابلاغ کا استعمال سنت نبویؐ کی روشنی میں‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ جبکہ بارہ ربیع الاول کو اڈیالہ روڈ راولپنڈی کے ایک شادی ہال میں تحریک اشاعت اسلام کے زیر اہتمام پروفیسر حافظ عبد الواحد سجاد کی صدارت میں منعقدہ سیرت کانفرنس میں ’’معاشرتی انصاف اور اسوہ نبویؐ‘‘ کے حوالہ سے معروضات پیش کیں۔ ذرائع ابلاغ کے عنوان پر کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم دین حق کے اولین داعی تھے اور آپؐ کی سب سے بڑی ذمہ داری نسل انسانی کو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور توحید کی طرف دعوت دینا اور قیامت کے حساب کتاب اور عذاب سے ڈرانا تھا۔ دعوت کے لیے ابلاغ ضروری ہوتا ہے بلکہ ابلاغ پہلے ہوتا ہے پھر اس کے بعد دعوت کا مرحلہ آتا ہے۔ کیونکہ جس چیز کی دعوت دینا مقصود ہو پہلے اس کا تعارف ضروری ہوتا ہے ورنہ دعوت کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے قرآن کریم کے ذریعہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، قدرت اور اختیارات و افعال کی طرف توجہ دلائی اور اللہ رب العزت کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بٹھائی۔ قرآن کریم دعوت دین کا سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ چلا آرہا ہے۔ جناب نبی اکرمؐ کو جہاں موقع ملتا، کوئی محفل میسر آتی اور کسی بھی حوالہ سے لوگوں کا کوئی اجتماع ہوتا آپؐ ان کو قرآن کریم سناتے اور دین کی دعوت دیتے۔ حتیٰ کہ تجارتی میلوں میں جو تجارت کے ساتھ ساتھ عرب ثقافت کے اظہار کے اجتماعات بھی ہوتے تھے، لوگ شعر و شاعری کرتے، خطابت کے جوہر دکھاتے، ناچ گانا ہوتا، جاہلی عصبیت کی بنیاد پر خاندانی مفاخر کا ذکر کیا جاتا، ایک دوسرے پر برتری جتاتے، نیزہ بازی و تلوار زنی کے مقابلے ہوتے اور طرح طرح کے تماشے ہوتے۔ حضورؐ ایسے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے، وہاں تشریف لے جا کر قرآن کریم سناتے، وعظ و نصیحت کرتے اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے۔ آپؐ ان لوگوں کی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنتے تھے مگر اپنی دعوت ان تک ضرور پہنچاتے تھے۔
اس حوالہ سے ایک بات پر توجہ دینے کی بطور خاص ضرورت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کی دعوت و تبلیغ کا سب سے بڑا ذریعہ قرآن کریم کی قراء ت و تلاوت ہوتا تھا اور چونکہ اولین مخاطب عرب لوگ تھے اس لیے ترجمہ و تشریح کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ قرآن کریم کا پیغام فطری جبکہ اسلوب فصاحت و بلاغت کے کمال کا تھا، اس لیے مخالفین کو اس کا اثر کم کرنے کے لیے طعن و تشنیع اور کردار کشی کے سوا کوئی بات نہیں سوجھتی تھی۔ کبھی مجنون کہتے، کبھی شاعر، کبھی ساحر اور کبھی کاہن کے طعنے کا سہارا لیتے۔ ایک مرحلہ میں قریشی سردار نضر بن حارث کو قرآن کریم کے مقابلہ میں محفلیں بپا کرنے کی سوجھی تو اس نے ناچ گانے، موسیقی اور قصے کہانیوں کو ذریعہ بنایا جس کا ذکر قرآن کریم نے لھو الحدیث کے عنوان سے کیا ہے اور لیضل عن سبیل اللە کے ارشاد کے ساتھ گمراہی پھیلانے کا اہم سبب قرار دیا ہے۔
قرآن کریم کا خطاب انسان کے دل و دماغ سے ہوتا ہے، وہ سوچ، فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے، اسے اس کے نفع و نقصان سے آگاہ کرتا ہے اور اس کی اگلی زندگی کے حالات کی خبر دیتا ہے۔ جبکہ ناچ گانا، موسیقی، قصے کہانیاں اور نفسانی خواہشات ابھارنے والی چیزیں انسان کو ضروری معاملات سے بے گانہ کرکے خواہشات اور سفلی جذبات کے دائرے میں لے آتی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ غور و فکر کی دعوت سے انسان ہدایت کی طرف جانے لگتا ہے جبکہ نفسانی خواہشات کی طرف توجہ دینے اور ان کا اسیر ہوجانے سے انسان کے قدم گمراہی کی طرف بڑھنے لگتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ہدایت کا ذریعہ اور ناچ گانے اور موسیقی وغیرہ کو گمراہی کا سبب قرار دیا ہے۔ ہر دور میں ہدایت اور گمراہی کے ان اسباب میں محاذ آرائی رہی ہے اور آج بھی اس کی صورتحال یہی ہے۔
جناب رسول اکرمؐ کے دور میں ابلاغ کے مؤثر ترین ذرائع فصاحت و بلاغت، شعر و شاعری اور خطابت تھے۔ آنحضرتؐ خود شاعر نہیں تھے جس کا ذکر قرآن کریم نے اس طور پر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو شعر و شاعری نہیں سکھائی اس لیے کہ یہ ان کے شایان شان نہیں تھی۔ البتہ صحابہ کرامؓ میں بہت سے باکمال شعراء اور خطیب تھے جن سے حضورؐ نے دعوتِ دین اور دفاعِ اسلام کا کام لیا۔ حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت کے محاذ پر اسلام کی نمایاں خدمت کی جبکہ حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور دیگر شعراء کرام نے شعر و شاعری میں کمالِ فن کا مظاہرہ کر کے اسلام کی دعوت، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء، جناب رسول اللہ کی نعت و مدح، اور مسلمانوں کے دفاع کے شاندار کارنامے سر انجام دیے۔
فصاحت و بلاغت اور گفتگو کا اعلیٰ اسلوب دین کی دعوت کے بنیادی تقاضوں میں سے ہے۔ حتیٰ کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر بلا کر نبوت کا منصب عطا فرمایا تو انہوں نے اپنی زبان کی لکنت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت میں شریک کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ ھو افصح منی لساناً وہ زبان و بیان کی فصاحت میں مجھ سے فائق ہے اس لیے اسے بھی میرا ساتھی بنایا جائے۔
فصاحت و بلاغت سے مراد وقت کا اعلیٰ ترین اسلوبِ گفتگو ہوتا ہے جو وقت اور جگہ کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے اور کبھی ایک معیار پر قائم نہیں رہتا۔ انسانی ذہنوں کی بھی ایک سطح نہیں ہوتی اور نفسیات بھی مختلف دائروں اور سطحوں میں منقسم رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اور جناب رسول اللہؐ کی ذاتی گرامی، دونوں میں یہ کمال رکھا ہے کہ وہ چونکہ سب انسانوں کے لیے ہیں اور قیامت تک کے لیے ہیں اس لیے گفتگو اور خطاب کے تمام ضروری اسلوب ان کو ودیعت کیے گئے ہیں۔ ان کے کلام سے ہر درجہ اور سطح کے لوگ استفادہ کر سکتے ہیں اور یہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کا اعجاز ہے۔
جناب رسول اکرمؐ نے اپنے دور کے اعلیٰ ترین اسلوبِ خطابت اور شعر و شاعری کو دین کی دعوت و دفاع کا ذریعہ بنایا اور قرآن کریم کے معجزانہ اندازِ بیان سے تمام مخالفتوں اور رکاوٹوں کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی۔ چنانچہ آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ جناب رسول اللہؐ کی اس سنت مبارکہ سے استفادہ کرتے ہوئے آج کے دور کے گفتگو، محاورہ، مکالمہ اور ابلاغ کے بہترین اسلوب کو اختیار کیا جائے اور ہر طبقہ و دائرہ کے انسانوں کی ذہنی سطح و نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے ان تک قرآن کریم کی دعوت کو پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۵ دسمبر ۲۰۱۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter