Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

43 - 50
تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب
(۲۲ اکتوبر ۲۰۱۵ء کو جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں اساتذہ و طلبہ سے خطاب۔)
بزرگان دین کا تذکرہ محبت و برکت کے علاوہ راہ نمائی کیلئے بھی ہوتا ہے۔ بلکہ قرآن کریم نے ہمیں احکام و قوانین پر براہ راست عمل کرنے کی بجائے بزرگان دین کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے نقش قدم پر چلنے کو صراط مستقیم قرار دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَاتَّبِــعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَـىَّ کہ ان لوگوں کے راستے پر چلو جو میرے سامنے جھک گئے۔ اس لیے بزرگان دین کا تذکرہ ہمارے لیے ایک دینی تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہماری مجالس و محافل میں ان کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ گزشتہ ماہ سیدنا عثمان بن عفانؓ کی شہادت کے حوالہ سے ان کا تذکرہ ہوتا رہا۔ اس ماہ کے آغاز میں سیدنا حضرت امیر المؤمنین عمر بن الخطابؓ کی شہادت اور ان کی فضیلت و منقبت موضوع گفتگو رہی۔ اور آج کل سیدنا حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کا تذکرہ کر کے ان کے ساتھ محبت و عقیدت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
بزرگوں کے دن منانا یا کچھ ایام کو ان کی یاد کیلئے مخصوص کر دینا تو کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتا لیکن انہیں یاد کرنا اور ان کی خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ کرتے رہنا رحمتوں اور برکتوں کا ذریعہ بنتا ہے ا ور اس سے راہ نمائی ملتی ہے۔ اس مناسبت سے میں اس کے ایک پہلو پر بھی کچھ عرض کر رہا ہوں کہ بزرگوں کے تذکرہ کے کچھ آداب اور کچھ تقاضے بھی ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ
ہم سب سے زیادہ تذکرہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتے ہیں اور انہی کا سب سے زیادہ تذکرہ کرنا چاہیے۔ مگر قرآن کریم نے اس کے کچھ آداب بیان کیے ہیں اور خود حضورؐ نے بھی چند آداب کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے صرف دو تین کا حوالہ دینا چاہوں گا، اس وجہ سے کہ آج کل حمد و نعت کی محفلیں عام ہو گئی ہیں اور شعر و شاعری کے ساتھ ساتھ خطابت میں بھی حمد و نعت اور منقبت کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ میری طالب علمانہ رائے کے مطابق اس سلسلہ میں افراط و تفریط کا رنگ غالب ہو گیا ہے جس کی طرف توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ عید کے روز جناب رسول اللہؐ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں آرام فرما رہے تھے کہ انصار کی کچھ بچیاں اپنے ان بزرگوں کو شعروں کی صورت میں یاد کرتے ہوئے ترنم کے ساتھ اشعار پڑھ رہی تھیں جو گزشتہ جنگوں میں قتل ہو گئے تھے۔ عید خوشی کا دن بھی ہوتا ہے اور بچھڑے ہوئے بزرگوں کو یاد کرنے کا دن بھی ہوتا ہے کہ اس دن بچھڑے ہوئے لوگ بہت یاد آتے ہیں۔ وہ بچیاں اپنے اس شغل میں مصروف تھیں کہ حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے اور یہ منظر دیکھ کر بچیوں کو منع کرنا چاہا مگر آپؐ نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ رہنے دیں بچیاں ہیں اور عید کا دن ہے۔ لیکن جب انہی بچیوں نے اشعار پڑھتے ہوئے یہ مصرعہ پڑھا کہ و فینا نبی یعلم ما فی غد کہ ہمارے درمیان ایسا نبی موجود ہے جو آنے والے کل کے حالات بھی جانتا ہے، تو جناب نبی اکرمؐ نے خود انہیں روک دیا کہ یہ بات نہ کہو اور باقی جو کچھ کہہ رہی ہو کہتی رہو۔
حضورؐ نے بچیوں کو یہ مصرعہ کہنے سے اس لیے روک دیا تھا کہ اس سے عقیدۂ توحید پر زد پڑتی تھی۔ اس کا واضح طور پر مطلب یہ ہے کہ بزرگوں کے تذکرہ حتیٰ کہ حضورؐ کی مدح میں بھی اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ اس سے اسلام کے کسی مسلمہ عقیدہ پر زد نہ پڑتی ہو۔
بزرگوں کا ادب و احترام
دوسرا واقعہ بھی بخاری شریف میں مذکور ہے کہ قریش کے شاعروں نے جب غزوۂ احزاب میں ناکامی کے بعد جناب نبی اکرمؐ کی مخالفت اور نعوذ باللہ ہجو میں اضافہ کر دیا تو ان کے جواب کیلئے حضرت حسان بن ثابتؓ سامنے آئے اور ایک موقع پر اپنے جذبات کاا ظہار اس طرح فرمایا کہ میں اپنی زبان کے ساتھ ان قریشیوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا کہ حسانؓ ! میں بھی تو قریشی ہوں، حضرت حسانؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں قریش کی مذمت کرتے ہوئے آپ کو درمیان سے ایسے نکال دوں گا جیسے آٹے میں سے بال نکال دیا جاتا ہے۔ لیکن آپؐ نے صرف اتنی بات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حضرت حسانؓ سے فرمایا کہ حضرت ابو بکرؓ کے پاس بیٹھ کر ان سے میری رشتہ داریوں کی تفصیل معلوم کر لو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کہیں انجانے میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دو جس سے جناب رسول اکرمؐ کے لیے سوء ادب کا پہلو نکلتا ہو۔
یہ بات میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ ہم مدح و منقبت میں اور کافروں کی مذمت میں بھی اس بات کے پابند ہیں کہ انتہائی احتیاط سے بات کریں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں انجانے میں اور بے دھیانی میں بھی کوئی بے احتیاطی نہ ہو جائے۔ جبکہ ہمارے ہاں شعر و شاعری اور خطابت دونوں دائروں میں اس امر کا لحاظ رکھنا کم ہوتا جا رہا ہے اور ہم ہر وہ بات کہہ دیتے ہیں جو کسی طرح ہمارے ذہنوں میں آ جاتی ہے۔ ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے اور حد درجہ احتیاط کا اہتمام کرنا چاہیے۔
نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز
جبکہ تیسری بات بھی بخاری شریف کے حوالہ سے ہی ذکر کروں گا کہ ایک موقع پر ایک انصاری صحابیؓ نے ایک یہودی کو اس بات پر تھپڑ مار دیا تھا کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سارے انسانوں پر فضیلت کی بات کہہ دی تھی۔ انصاری صحابیؓ کو غصہ آیا کہ یہ شخص حضرت موسیٰؑ کو حضرت محمدؐ پر بھی فضیلت دے رہا ہے اور اس غصے میں انصاری صحابہؓ نے اس یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ وہ یہودی جب شکایت لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپؐ نے فرمایا کہ مجھے حضرت موسیٰؑ پر فضیلت نہ دو۔ اس لیے کہ قیامت کے دن جب سب لوگ بے ہوش ہو جائیں گے تو میں سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا جبکہ حضرت موسیٰؑ عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہوں گے۔ ممکن ہے وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آچکے ہوں گے یا بے ہوش ہی نہیں ہوئے ہوں گے۔ کیونکہ وہ دنیا میں کوہ طور پر ایک بار اللہ تعالیٰ کے نور کی تجلی کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو گئے تھے، اس لیے شاید قیامت کے دن کی بے ہوشی سے مستثنیٰ کر دیے گئے ہوں۔ یہی بات حضورؐ نے ایک موقع پر حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں بھی فرمائی کہ مجھے ان پر فضیلت نہ دو۔ بلکہ ایک موقع پر فرمایا لا تخیرونی من بین الانبیاء کہ مجھے انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان فضیلت نہ دو۔
اس پر سوال اٹھتا ہے کہ حضرات انبیاء کرامؑ کے درمیان فضیلت کی بات تو خود قرآن کریم کہتا ہے تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُـمْ عَلٰى بَعْضٍ کہ ہم نے بعض انبیاءؑ کو بعض دوسرے انبیاءؑ پر فضیلت دی ہے۔ اور سب انبیاء کرامؑ پر اپنی فضیلت اور برتری کاذکر خود جناب رسول اللہؐ نے فرمایا ہے جو بیسیوں احادیث میں موجود ہے۔ اور ہم اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ حضورؐ کو علی الاطلاق تمام انبیاء کرامؑ پر فضیلت حاصل ہے۔ پھر آپؐ نے خود کو انبیاء کرامؑ بالخصوص حضرت موسیٰؑ اور حضرت یونسؑ پر فضیلت دینے سے منع کیوں فرمایا ہے؟ شارح بخاری حضرت علامہ قسطلانیؒ فرماتے ہیں کہ مطلق فضیلت بیان کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ ایسی فضیلت بیان کرنے سے روکا ہے کہ جس سے دوسرے بزرگ کی اہانت کا پہلو نکلتا ہے۔ یعنی نبیوں کا آپس میں تقابل نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ تقابل کی صورت میں دوسری طرف کچھ نہ کچھ اہانت یا تخفیف کا پہلو ضرور نکل آتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ ذوق عام ہوتا جا رہا ہے کہ حضرات انبیاء کرامؑ ہوں یا حضرات صحابہ کرامؓ ہوں ہم دو بزرگوں یا دو گروہوں کو آمنے سامنے کھڑا کر کے تولنا شروع کر دیتے ہیں اور بسا اوقات وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جس کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کا تذکرہ صحیح طریقہ سے کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
نومبر ۲۰۱۵ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter