Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

20 - 50
اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی لاہور کی دعوت پر فیز تھری کی مسجد میں ربیع الاول کی بارہویں شب کو ’’سرور کائناتؐ اور اتحاد بین المسلمین‘‘ کے عنوان پر کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجھے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے ہزاروں پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو پر کچھ عرض کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ آقائے نامدار امت مسلمہ کے اتحاد کا مرکزی نقطہ ہیں۔ حضورؐ کی ذات اقدس ہمیشہ مسلمانوں کی وحدت کا مرکز رہی ہے، آج بھی امت آپؐ کی ذات پر مجتمع ہے، اور قیامت تک آپؐ تمام مسلمانوں کی یکساں عقیدت و اطاعت کا مرکز رہیں گے۔ اس عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے میں وقت کے اختصار کے باعث صرف تین حوالوں سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
1- اتحاد کا مطلب کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟
2- مسلمانوں کو آپس میں متحد رکھنے کے لیے جناب نبی اکرمؐ نے جن سینکڑوں ارشادات گرامی میں تلقین فرمائی ہے ان میں سے چند ارشادات نبویؐ کا ذکر کروں گا۔
3- توہین رسالتؐ کے اخباری خاکوں کی اشاعت کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے اجتماعی طور پر جناب رسول اللہؐ کے ساتھ جس شدت سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کیا ہے اس سے رسول اکرمؐ کی ذات گرامی ایک بار پھر مسلمانوں کی وحدت و اجتماعیت کے مرکزی نکتے کے طور پر دنیا کے سامنے آئی ہے، اس بارے میں بھی کچھ عرض کروں گا۔
اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے
پہلی بات یہ کہ اتحاد کسے کہتے ہیں اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی قوم کے درمیان اختلافات پیدا نہ ہونے کو اتحاد کہا جاتا ہے۔ یعنی اتحاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ اول تو اختلاف پیدا نہ ہو اور اگر کسی مسئلے پر اختلاف پیدا ہو جائے تو یہ اتحاد ختم ہو جائے۔ میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ کیونکہ اختلاف ایک فطری امر ہے، جہاں بھی انسان باہم اکٹھے ہوں گے ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوگا، یہ عقل و فطرت کا تقاضہ ہے اور اسلام اس کی نفی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عقل و فہم کے مختلف درجات سے نوازا ہے، مزاج الگ الگ ہیں، اور نفسیات میں بے پناہ تفاوت ہے، اس لیے اختلاف پیدا نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ اختلاف کو ختم ہوجانا چاہیے، اس لیے کہ اختلاف اگر پیدا ہوگا تو وہ باقی بھی رہے گا۔ ہمیں اس بات کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ اختلاف اور چیز ہے جبکہ تفرقہ اور چیز ہے۔ قرآن کریم نے اختلاف سے کسی جگہ بھی منع نہیں کیا البتہ تفرقہ سے منع کیا ہے۔ چنانچہ اتحاد بین المسلمین پر گفتگو کرتے ہوئے میں اس نکتہ کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں اور اس سلسلے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیسیوں ارشادات میں سے دو کا ذکر کرنا چاہوں گا
بخاری شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسجد نبویؐ میں ایک صاحب نماز پڑھ رہے تھے جس میں وہ بلند آواز سے قرأت کر رہے تھے۔ انہوں نے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھی جو اس طرح نہیں تھی جس طرح حضرت عمرؓ نے جناب رسول اللہؐ سے پڑھی تھی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ چونکہ وہ میرے حساب سے قرآن کریم کی آیت غلط پڑھ رہا تھا اس لیے مجھے سخت غصہ آیا، قریب تھا کہ میں نماز کے دوران ہی اسے دبوچ لیتا مگر میں نے صبر کیا اور اس کے نماز مکمل کرنے کا انتظار کیا۔ جونہی اس نے نماز مکمل کی میں نے اس کے گلے میں چادر ڈالی اور کھینچتا ہوا اسے جناب رسول اللہؐ کے پاس لے گیا کہ یارسول اللہ! یہ شخص نماز میں قرآن کریم غلط پڑھ رہا تھا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ پہلے اس کی گردن تو چھوڑو، میں نے اسے چھوڑ دیا تو آپؐ نے اس سے فرمایا کہ وہ آیت جس طرح تم پڑھ رہے تھے اب پڑھ کر سناؤ۔ اس نے سنا دی۔ پھر مجھے فرمایا کہ جس طرح تمہیں یاد ہے تم سناؤ۔ میں نے بھی سنا دی۔ اس پر نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اس نے بھی ٹھیک پڑھا ہے اور تم نے بھی درست پڑھا ہے۔
یہ دراصل قرأتوں کا اختلاف تھا۔ کسی بھی زبان میں بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کا تلفظ اور لہجہ علاقوں اور قوموں کے فرق سے بدل جاتا ہے لیکن معنیٰ ایک ہی رہتا ہے۔ لفظ بھی بنیادی طور پر وہی ہوتا ہے لیکن لہجہ اور تلفظ بدل جاتا ہے اور بعض اوقات سپیلنگ بھی بدل جاتے ہیں۔ میں مثال کے طور پر پنجابی کے ایک لفظ کا حوالہ دوں گا کہ ہمارے ہاں کسی کام کی کیفیت پوچھنے کے لیے ’’کیویں‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ لیکن اس لفظ کے مختلف تلفظ میں کہیں یہ لفظ کیویں ہے، کہیں کداں ہے، کہیں کیکن ہے، کہیں کنجو ہے، اور کسی علاقے میں اسے کیاں کے تلفظ کے ساتھ بولا جاتا ہے۔ یعنی لفظ اور معنٰی ایک ہی ہے لیکن تلفظ اور ادائیگی مختلف ہے۔ یہ زبان پر علاقائی اثرات ہوتے ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
چنانچہ بخاری شریف کی روایت میں ہےکہ جناب رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم جب نازل ہوا تو اسے قریش کے لہجے اور تلفظ میں پڑھنے کی پابندی تھی۔ آپؐ نے بارگاہ ایزدی میں خود درخواست کی کہ ایک ہی لہجے اور تلفظ کا سب عربوں کو پابند بنانے سے بہت سے عرب قبائل کو قرآن کریم پڑھنے میں دقت پیش آسکتی ہے اس لیے اس معاملے میں سہولت پیدا کی جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری استدعا پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سات مختلف لہجوں اور قرأتوں میں پڑھنے کی اجازت دے دی تاکہ تمام لہجوں اور قرأتوں کے ساتھ لوگ آسانی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کر سکیں۔ اب یہ اختلاف ایسا ہے جو آنحضرتؐ نے خود مانگ کر لیا ہے اس لیے کہ یہ فطری ضرورت تھا۔
دوسرا واقعہ بھی بخاری شریف میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کا عام طور پر معمول یہ تھا کہ ہر نماز کے لیے مستقل الگ وضو فرماتے تھے، لیکن حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے ایک ہی وضو کے ساتھ پورے دن کی نمازیں پڑھ ڈالیں۔ حضرت عمرؓ نے اس بارے میں دریافت کیا کہ یارسول اللہ! آپ نے آج ایسا کام کیا ہے جو اس سے پہلے آپ نہیں کیا کرتے تھے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ ہر نماز کے لیے الگ وضو کرنا اگرچہ بہت اجر و ثواب کی بات ہے لیکن اس کی پابندی سے بہت سے لوگوں کو دقت ہوگی۔ اس لیے حضورؐ نے ایک وضو کے ساتھ کئی نمازیں ادا کر کے اسے بھی سنت میں شامل فرما لیا تاکہ کسی کو ایسا کرتے ہوئے کوئی الجھن نہ ہو۔ یہ صرف ایک مثال میں نے ذکر کی ہے اس طرح کی بیسیوں بلکہ سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ ایک کام کو جناب رسول اللہؐ نے مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے انجام دیا تاکہ طریقوں میں تنوع ہو اور لوگوں کو اپنی سہولت کے مطابق ان میں سے کوئی طریقہ اختیار کرنے میں یہ پریشانی نہ ہو کہ حضورؐ نے تو ایسا نہیں کیا تھا۔
اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ اسلام نے اختلاف کی نفی نہیں کی بلکہ اس کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا احترام کیا ہے اور اسے برقرار رکھا ہے۔ البتہ اسلام نے اختلاف کی حدود کا تعین کیا ہے اور ہر اختلاف کو اس کے دائرے میں رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ اختلاف کی حدود میں پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ جہاں اختلاف کی گنجائش ہو وہاں اختلاف کیا جائے اور جہاں اختلاف کی گنجائش نہ ہو وہاں اختلاف کرنے سے گریز کیا جائے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے بریرہؓ کے ایک واقعہ کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے اپنی باندی بریرہؓ کو آزاد کر دیا تو وہ ایک صحابی مغیثؓ کے نکاح میں تھیں۔ آزاد ہونے کے بعد شرعی طور پر بریرہؓ کو یہ حق حاصل ہوگیا تھا کہ وہ اگر مغیثؓ کے نکاح میں نہ رہنا چاہے تو اس سے علیحدگی اختیار کر لے۔ بریرہؓ نے ایسا ہی کیا اور مغیثؓ سے نکاح ختم کر لیا۔ اس پر مغیثؓ کو پریشانی ہوئی اور اس نے مختلف اطراف سے بریرہؓ کو واپسی پر آمادہ کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں حتیٰ کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق مغیثؓ کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں گھومتے رہتے تھے، آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ کوئی ہے جو بریرہؓ کو منا لائے؟ حضورؐ نے یہ صورتحال دیکھ کر خود بریرہؓ سے بات کی اور اس بارے میں اس سے پوچھا۔ بریرہؓ نے جواب دیا کہ یہ میرا شرعی حق تھا جو میں نے استعمال کیا ہے کیونکہ میں مغیثؓ کے نکاح میں نہیں رہنا چاہتی۔ آپؐ نے پوچھا کیا تم اپنا یہ فیصلہ واپس نہیں لے سکتیں؟ اس نے بڑے ادب سے پوچھا کہ یارسول اللہ! یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ ہے؟ بڑی سمجھدار خاتون تھی، اور کیسے نہ ہوتی کہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں رہ رہی تھی۔ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ اس نے یہ سوال کر کے ایک حد فاصل قائم کر دی کہ جناب نبی اکرمؐ کے کسی حکم کو نہ ماننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، البتہ مشورہ کی صورت میں اختیار باقی رہتا ہے۔ جب حضورؐ نے فرمایا کہ میں حکم نہیں دے رہا بلکہ مشورہ دے رہا ہوں تو اس نے بے ساختہ کہا کہ میں اپنے فیصلہ پر قائم ہوں اور مجھے مغیثؓ کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر جگہ اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی اور اختلاف وہیں کیا جا سکتا ہے جہاں اس کی گنجائش ہو۔ مثلاً قرآن کریم کے کسی حکم کو سمجھنے اور اس کا مصداق طے کرنے میں تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن نفس حکم سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد اور عمل کا مفہوم و منشا متعین کرنے میں تو اختلاف کی گنجائش ہے لیکن ارشاد و عمل سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا اختلاف کی حدود میں پہلی بات یہ ضروری ہے کہ اس امر کا لحاظ رکھا جائے کہ کہاں اختلاف کی گنجائش ہے اور کہاں نہیں ہے۔
اس سلسلے میں دوسری بات یہ ضروری ہے کہ ہر اختلاف کو اپنی سطح پر اور اپنے درجہ میں رکھا جائے۔ ہمارے ہاں اختلاف پر ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ بازی کا جو رجحان زور پکڑ گیا ہے یہ درست نہیں ہے۔ ہر اختلاف کفر و اسلام کا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر اختلاف حلال و حرام کا ہوتا ہے۔ بعض جگہ صرف اولیٰ و غیر اولیٰ اور ترجیحات کا اختلاف ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں فتویٰ بازی ہر اختلاف کے حوالے سے یکساں ہوتی ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اس رجحان پر قابو پانا وحدت امت کے لیے آج کے دور کا سب سے بڑا تقاضہ ہے۔ اس سلسلہ میں جناب نبی اکرمؐ کے ایک ارشاد گرامی کا حوالہ دوں گا جس میں آپؐ نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے کسی مسلمان کو کافر کہا اگر وہ کافر نہ ہو تو کفر کا فتویٰ کافر کہنے والے پر واپس لوٹ آئے گا۔ اور جس شخص نے کسی مسلمان پر لعنت بھیجی ہے جبکہ وہ لعنت کا مستحق نہیں تو یہ لعنت بھیجنے والے پر واپس آئے گی۔ یہی فتوے ہمارے ہاں سب سے بڑے فتوے شمار ہوتے ہیں جن کی اہمیت اور نزاکت جناب نبی اکرمؐ نے ان ارشادات گرامی میں بیان فرمائی ہے۔ اگر اختلافات کی حدود کو قائم رکھا جائے اور بلاوجہ فتویٰ بازی سے گریز کر کے ہر اختلاف کو اس کی سطح پر اور اس کے دائرے میں محدود رکھا جائے تو یہ اختلاف امت کے اتحاد میں رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ یہ اختلافات نہ صرف فطرت کا تقاضہ اور رحمت ہیں بلکہ ہماری معاشرتی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔
وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات
اس کے بعد یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب رسول اللہؐ نے اپنے بہت سے ارشادات میں ہمیں باہمی وحدت برقرار رکھنے کی تلقین کی ہے اور اس کے تقاضوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کر رہا ہوں۔
حجۃ الوداع کے تاریخی خطبے میں جناب رسالت مابؐ نے دور جاہلیت کے خاتمے کا اعلان کر کے اسلام اور روشنی کے دور کا آغاز کیا اور یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ کل امر الجاہلیۃ تحت موضوع قدمی کہ جاہلیت کی تمام اقدار آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ ان میں شرکت و بدعت، نسل پرستی، زبان و رنگ کا امتیاز، بدکاری، شراب، جوا، سود، کہانت و نجوم، ناچ گانا، عریانی، اور باہمی قتل و قتال کی جاہلی اقدار شامل تھیں جنہیں جناب رسول اللہؐ نے تئیس سالہ محنت کے ساتھ ختم کیا اور ان جاہلی اقدار سے پاک اسلامی معاشرے کا آغاز فرمایا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج یہ تمام ا قدار ایک ایک کر کے پھر ہمارے معاشرے کا صہ بن گئی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان روایات کا ابوجہل، ابولہب، نضر بن حارث، اور دیگر کافر سرداروں کے حوالہ سے ذکر کیا جاتا ہے تو وہ جاہلی اقدار کہلاتی ہیں جبکہ وہی اقدار ہماری سوسائٹی کا حصہ بنتی ہیں تو تمدن، سولائزیشن، ترقی، یا آرٹ کا عنوان اختیار کر لیتی ہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرتؐ نے اپنے خطبے میں ہمیں اس بات کی تلقین بھی فرمائی تھی کہ میرے بعد کفر و جاہلیت کے دور کی طرف واپس نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کا خون بہانا اور باہمی قتل و قتال کسی بھی عنوان سے ہو، اسے جناب رسول اللہؐ نے کفر و جاہلیت سے تعبیر کیا ہے جبکہ ایک حدیث میں اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی ایک صورت قرار دیا ہے۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے چار باتوں کا سوال کیا، اللہ تعالیٰ نے ان میں سے تین چیزیں عطا فرمائیں لیکن ایک نہیں دی۔ میں نے سوال کیا کہ میری امت پر مجموعی طور پر پہلی امتوں جیسا عذاب نازل نہ ہو، یہ بات اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی۔ میں نے عرض کیا کہ میری امت یکبارگی گمراہی کا شکار نہ ہو، یہ بات بھی قبول کر لی گئی۔ میں نے گزارش کی کہ میری امت ساری کی ساری یکبارگی تباہ نہ ہو، یہ بات بھی قبول ہوگئی۔ میں نے عرض کیا کہ میری امت آپس میں نہ لڑے تو یہ بات اللہ تعالیٰ نے قبول نہیں فرمائی۔ جبکہ ایک اور حدیث میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ میری امت پر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا تو اس کی عملی صورتیں تین ہوں گی۔ ایک یہ کہ میری امت کے لوگ آپس میں لڑیں گے اور ایک دوسرے کا خون بہائیں گے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ امت کے شریر لوگوں کو ان پر مسلط کر دیں گے۔ اور تیسرا یہ کہ امت کے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔
ایک حدیث میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں، اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ یعنی آنکھ کو تکلیف ہو تو سارا جسم اسے محسوس کرتا ہے اور اگر پاؤں کو کو درد تو جسم کے سارے اعضاء اسے محسوس کرتے ہیں۔ ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس لیے کوئی مسلمان نہ اپنے دوسرے بھائی پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے ظلم کے لیے کسی دوسرے کے حوالے کرتا ہے۔
ان ارشادات نبویؐ کی روشنی میں دیکھا جائے تو امت کے موجودہ افتراق کے اسباب کو تلاش کرنا کچھ مشکل کام نہیں ہے۔ آج کے دور کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم امت کے افتراق کے اصل اسباب کو تلاش کریں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں کیونکہ جناب رسول اللہؐ نے ہمیں اسی کی تلقین فرمائی ہے اور اس حوالے سے ہماری یہی دینی و ملی ذمہ داری ہے۔
توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل
اس کے بعد میں گفتگو کے آخری نکتے کی طرف آتا ہوں کہ ہماری تمام تر خرابیوں، کمزوریوں، اور بد اعمالیوں کے باوجود توہن رسالتؐ کے خلاف عالم اسلام کے حالیہ اجتماعی احتجاج سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد کا مرکزی نکتہ آج بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ یہ بات جہاں حضورؐ کی کا اعجاز اور اسلام کی صداقت کا اظہار ہے وہاں اس بات کی بھی علامت ہے کہ مسلمانوں کے ایمان کا کنکشن آج بھی قائم ہے۔ یہ کنکشن درست ہے اور اس میں کوئی کمزوری نہیں ہے۔ البتہ ہمارے ’’سیٹوں‘‘ میں کمزوری ہے، اگر ہم اپنے اپنے سیٹ ٹھیک کرلیں اور ان کی خرابیوں کو دور کر لیں تو حضورؐ کی عقیدت کا کنکشن آج بھی ’’اسٹیبل‘‘ ہے اور اس کی برکتیں اور بہاریں بدستور تازہ ہیں۔
یورپ کے بعض اخبارات نے تو یقیناً یہ کارروائی شر کے خیال سے کی ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں سے خیر کا یہ پہلو نکال دیا ہے کہ حضرت محمدؐ کے ساتھ مسلمانان عالم کی بے لچک کمٹمنٹ کا ایک بار پھر اظہار ہوگیا ہے اور مغرب کو اس تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ اس نے گزشتہ تین صدیوں کے درمیان مسلمانوں کی کمٹمنٹ کے مراکز تبدیل کرنے کی جو محنت کی تھی وہ رائیگاں جا رہی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کی کمٹمنٹس کی ترجیحات میں آج بھی سرفہرست اسلام اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، باقی تمام کمٹمنٹس کا درجہ اس کے بعد آتا ہے۔ یہ حضورؐ کی ذات گرامی، سیرت مبارکہ، اور تعلیمات کا وہ اعجاز ہے جس کا مشاہدہ ہم جیسے گئے گزرے مسلمان بھی کر رہے ہیں اور ساری دنیا اس منظر کو دیکھ رہی ہے۔ اس لیے ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا آج کے دور میں ہمارے لیے یہی پیغام ہے کہ اپنی اصل کی طرف واپس پلٹیں اور آپؐ کی سیرت و اسوۂ حسنہ سے روشنی حاصل کر کے اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا جزو بنا لیں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ پاکستان، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۷ اپریل ۲۰۰۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter