Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

32 - 50
نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی
11 فروری 2012ء کو جناح باغ لاہور میں واقع دارالسلام لائبریری میں ’’نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر نے کی جبکہ جنرل (ر) ضیاء الدین بٹ مہمان خصوصی تھے۔ راقم الحروف کو بھی اس موقع پر کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ’’خارجہ پالیسی‘‘ کا جملہ جب بولا جاتا ہے تو سب سے پہلا یہ تاثر سامنے آتا ہے کہ ایک ریاست اور حکومت ہے جسے دوسری ریاستوں، حکومتوں اور قوموں کے ساتھ اپنے معاملات چلانے اور دنیا میں ان کے ساتھ مل جل کر رہنے کے لیے کوئی طریق کار اور اصول و قوانین طے کرنے ہیں۔ اس مفہوم میں جب ہم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خارجہ پالیسی کے لیے ان کے طے کردہ اصولوں اور ہدایات کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو گفتگو کا دائرہ یہ بنتا ہے کہ مدینہ منورہ کی ریاست وجود میں آنے اور اس میں آنحضرتؐ کی حکومت و اقتدار قائم ہونے کے بعد خارجہ پالیسی کے بارے میں آپؐ نے کیا طرز عمل اختیار کیا تھا اور کیا ہدایات دی تھیں، اس کے لیے ہمیں بنیادی طور پر
1- حضورؐ کے ان خطوط کا مطالعہ کرنا ہوگا جو آپؐ نے دنیا کے مختلف ممالک کے حکمرانوں کو ارسال فرمائے تھے،
2- ان معاہدات کا جائزہ لینا ہوگا جو متعدد اقوام اور ریاستوں کے ساتھ آپؐ نے کیے تھے، اور
3- ان وفود کے ساتھ رسالت مابؐ کی گفتگو اور رویے کو سامنے رکھنا ہوگا جو مختلف مواقع پر مختلف اقوام کی طرف سے مدینہ منورہ آئے اور انہوں نے حضورؐ کے ساتھ باہمی معاملات پر گفتگو کی۔
دوسری قوموں کے ساتھ معاملات کے بارے میں قرآن کریم نے بیسیوں آیات میں احکام دیے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ آنحضرتؐ کی خارجہ پالیسی کی بنیاد انہی آیات قرآنیہ پر تھی۔ ان ساری باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے جو صورتحال سامنے آتی ہے اس کے پیش نظر میری طالب علمانہ رائے میں حضورؐ کی خارجہ پالیسی کے بعض حصوں کو درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
جناب نبی اکرمؐ رسولِ انسانیت ہیں اور آپؐ کی دعوت و نبوت پوری نسل انسانی کے لیے ہے۔ آپؐ نے مکہ مکرمہ میں نبوت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد جو سب سے پہلا خطاب کیا تھا وہ یا ایھا الناس کے عنوان سے تھا کہ قریشیوں یا عربوں سے خطاب کرنے کی بجائے نبی آخر الزمانؐ پوری نسل انسانیت سے مخاطب ہوئے تھے۔ آج گلوبلائزیشن کے حوالے سے مغربی دنیا کچھ بھی کہے، مگر تاریخی حقیقت یہ ہے کہ رنگ و نسل، قومیت، جغرافیہ، اور زبان وغیرہ کی حدود سے بالاتر ہو کر پوری نسل انسانیت کو اپنی دعوت و خطاب کا عنوان سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا تھا اور گلوبلائزیشن کے اولین بانی پوری تاریخ انسانی میں حضورؐ ہی تھے۔ اس لیے آپؐ نے دوسری قوموں، حکومتوں، اور سرداروں کو جو خطوط لکھے ان میں سب سے زیادہ اہمیت اور اولیت اسلام کے تعارف اور دعوت کو حاصل تھی جو جناب رسول اللہؐ کی عالمگیر نبوت و رسالت کا لازمی تقاضا تھا۔
جناب نبی اکرمؐ چونکہ دین فطرت لے کر آئے تھے جس کی بنیاد وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر ہے اور آپؐ کا دین تمام آسمانی دینوں کا آخری اور فائنل ورژن ہے، چنانچہ پوری نسل انسانی کو فطری اور وحی کی طرف لانا بھی آنحضرتؐ کے مقاصد نبوت میں سے تھا جس کے لیے اسلام کا غلبہ اور برتری نسل انسانی کی ناگزیر ضرورت تھا۔ اس لیے آپؐ نے دنیا کے تمام انسانوں کو دعوت دی کہ وہ اسلام قبول کریں۔ اور اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے تو نسل انسانی تک اس دین کے پہنچنے اور انسانوں کے اس مذہب کو قبول کرنے میں مزاحمت نہ کریں اور رکاوٹ نہ بنیں، یعنی وہ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے بھی اسلام کے فروغ اور غلبے کی راہ میں حائل نہ ہوں۔
یہ بات میرے خیال میں ایسی ہی ہے جیسے آج مغرب دنیا کے تمام ممالک و اقوام سے کہہ رہا ہے کہ چونکہ اس کے نزدیک مغربی تہذیب و ثقافت سب سے بہتر اور ایک آئیڈیل فلسفہ و تہذیب کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے دنیا کے تمام اقوام و ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ویسٹرن سولائزیشن کی بالادستی کو قبول کریں اور اپنی اپنی علاقائی تہذیبوں اور ثقافتوں کو مغربی تہذیب و ثقافت کی حدود میں لے آئیں۔ مغرب اس کے لیے قوت، لابنگ، اور دھونس کے سارے حربے استعمال کر رہا ہےاور دنیا بھر میں اپنی ثقافت کی بالادستی قائم کرنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میرا خیال یہ ہے کہ اسلام کا موقف بھی کم و بیش یہی ہے کہ چونکہ وہ دین فطرت ہے اس لیے اس کی بالادستی کے سامنے دنیا کی تمام اقوام و ممالک کو سرتسلیم خم کر دینا چاہیے۔
چنانچہ اصل جھگڑا یہ نہیں ہے کہ کسی تہذیب و ثقافت کی بالادستی تسلیم کرانے کے لیے طاقت کا استعمال درست ہے یا نہیں، بلکہ اصل تنازع یہ ہے کہ مغرب کے دعوے کے مطابق دنیا پر بالادستی کا حق ویسٹرن سولائزیشن کو ہے، جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ نسل انسانی کی قیادت کا حق دین فطرت کو حاصل ہے اور انسانیت کی بھلائی اسی دین و ثقافت کو قبول کرنے میں ہے۔
بہرحال جناب نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی کا دوسرا بڑا نکتہ اسلام کا غلبہ اور اس کی بالادستی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنا تھا۔ اسی وجہ سے حضورؐ یہ ہدایت دیا کرتے تھے کہ پہلے دوسری قوموں کے سامنے اسلام پیش کرو، اگر اسے قبول نہ کریں تو اس بات کی دعوت دو کہ وہ اسلام کی بالادستی اور برتری تسلیم کریں اور اس کے فروغ و نفاذ کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔ اور اگر وہ اسلام بھی قبول نہ کریں اور اس کی اشاعت میں رکاوٹ بھی بنیں تو ان سے جہاد کرو۔ گویا جہاد اور جنگ اسلام قبول نہ کرنے پر نہیں ہے، بلکہ اس کی راہ میں مزاحم ہونے پر ہے۔
اسلام قبول نہ کرنے والی اقوام کے ساتھ معاملات میں قرآن کریم نے جو ہدایات دی ہیں ان کی روشنی میں ان اقوام و ممالک کی درجہ بندی تین دائروں میں کی جا سکتی ہے:
1- سورۃ الممتحنہ کی آیت 8 کے مطابق جو قومیں مسلمانوں کے ساتھ دین کے حوالے سے جنگ نہیں کرتیں اور مسلمانوں کو ان کے ملک اور زمین سے محروم کرنے کے عمل میں شریک نہیں ہیں، ان کے ساتھ حسن سلوک اور برابری کی بنیاد پر تعلقات کی اجازت ہے۔ انہیں فقہائے کرام کی اصطلاح میں غیر محارب اقوام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
2- اس سے اگلی آیت کریمہ میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ دین کے حوالے سے مسلمانوں سے جھگڑا کرتے ہیں، مسلمانوں کو ان کی زمین اور وطن سے محروم کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں، اور ایسا کرنے والوں کے ساتھ اس معاملہ میں معاون ہوتے ہیں، ان قوموں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی اجازت نہیں ہے۔
3- جبکہ سورہ آل عمران کی آیت 28 میں حکم الٰہی یہ ہے کہ مسلمان کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو مسلمان کافروں کو دوست بنائیں گے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ کسی بات پر نہیں ہیں۔ البتہ کافروں کے شر سے بچنے کے لیے ظاہری تعلقات رکھے جا سکتے ہیں۔ اسے ’’تحفظاتی دائرے‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
اس طرح یہ تین اصول ہیں جنہیں اسلام کی خارجہ پالیسی کی اساس قرار دیا جا سکتا ہے۔
جناب نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی میں یہ بات ایک بڑی حکمت عملی سمجھی جاتی ہے کہ مدینہ منورہ میں جب آپؐ نے ’’میثاق مدینہ‘‘ کی صورت میں یہودیوں کے ساتھ ایک مشترکہ ریاست تشکیل دی تھی جس پر یہودی قائم نہ رہے اور معاہدہ شکنی کی پاداش میں یکے بعد دیگرے یہودیوں کے تینوں قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر، اور بنو قریضہ مدینہ منورہ سے جلاوطن ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے خیبر کو مرکز بنا کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں اور مسلمانوں کو یہودیوں کے ساتھ یہ فیصلہ کن جنگ نظر آنے لگی۔ اس پر جناب رسول اللہؐ نے خیبر کی جنگ سے پہلے قریش مکہ کے ساتھ ’’معاہدۂ حدیبیہ‘‘ کر کے اس محاذ کو خاموش کیا اور اس کے فورًا بعد خیبر پر حملہ کر کے یہودیوں سے نمٹ لینے کا اہتمام کیا جو کہ جنگی اور سفارتی فراست و تدبر کا شاہکار ہے۔
جناب نبی اکرمؐ نے بین الاقوامی سطح پر برابری اور رواداری کے باوجود اگر کہیں سے کوئی چیلنج سامنے آیا تو اسے قبول کرنے میں کمزوری نہیں دکھائی اور چیلنج کو قبول کر کے اس کا بروقت سامنا کیا۔ جیسا کہ حضورؐ کے ایک سفیر کو شام کے علاقے میں قتل کیا گیا تو آپؐ نے اس دور کے عالمی عرف کے مطابق اسے اعلان جنگ تصور کرتے ہوئے حضرت زید بن حارثہؓ کی قیادت میں لشکر شام کی طرف روانہ کیا جس نے موتہ کے مقام پر جنگ لڑی اور اس میں حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت جعفر طیارؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ شہید ہوئے۔
غزوہ خندق کے بعد جناب رسول اللہؐ نے اعلان فرمایا کہ قریش مکہ ہمارے خلاف آخری زور لگا چکے ہیں، اب وہ ہمارے خلاف جنگ کے لیے میدان میں نہیں آئیں گے بلکہ اب ہم ان کی طرف جنگ کرنے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی آپؐ نے یہ اعلان فرمایا کہ اب قریش اور ان کے ہمنوا تلوار کی جنگ نہیں لڑیں گے بلکہ شعر و شاعری اور ادب و خطابت کے ذریعے اسلام کی توہین اور مسلمانوں کی کردارکشی کی جنگ لڑیں گے۔ اسے میں آج کے عرف کے مطابق ’’میڈیا وار‘‘ سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔ جناب نبی اکرمؐ نے یہ جنگ لڑنے کے لیے صحابہ کرامؓ کو دعوت دی تو تین بڑے شاعر حسان بن ثابتؓ، عبد اللہ بن رواحہؓ، اور کعب بن مالکؓ سامنے آئے اور ان کے ساتھ ایک بڑے خطیب ثابت بن قیسؓ بھی میدان میں ڈٹ گئے اور ان چاروں نے شاعری او رخطابت کے میدان میں کفر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
اس کے ساتھ ہی عسکری قوت میں بھی قرآن کریم نے مسلمانوں کو اس حد تک آگے بڑھنے کا حکم دیا کہ مسلمانوں کو عسکری اعتبار سے اس قدر طاقتور ہونا چاہیے کہ دشمن اس سے خوفزدہ ہوں اور طاقت کا توازن مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو۔ اس لیے کہ ایک مؤثر خارجہ پالیسی کے لیے جہاں داخلی استحکام اور قومی وحدت ضروری ہے وہاں عسکری قوت میں بالادستی اور رعب بھی اس کا ناگزیر تقاضا ہے، اور قرآن کریم نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔
سامعین کرام! یہ چند نکات جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خارجہ پالیسی کا مطالعہ کرتے ہوئے ذہن میں آئے جو عرض کر دیے ہیں۔ جبکہ اجتماعیت اور نظام کے حوالے سے جناب نبی اکرمؐ کی تعلیمات اور پالیسیوں کا وسیع پیمانے پر مطالعہ کرنے اور انہیں آج کی زبان و اسلوب میں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ خدا کرے کہ ہم مسلمان بالخصوص دینی حلقے اس اہم دینی و ملی ضرورت کی طرف توجہ دے سکیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ پاکستان، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۵ فروری ۲۰۱۲ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter