Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

48 - 50
دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲)
بھلوال سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر چک 11 نامی بستی کے ایک نوجوان اعجاز حسین نے 1965ء کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر جام شہادت نوش کیا تھا جس کی یاد کو اس کا خاندان ابھی تک تازہ رکھے ہوئے ہے۔ بلکہ اس کے بھائیوں نے اس یاد کو ہمیشہ زندہ رکھنے کا بھی انتظام کر دیا ہے۔ شہید اعجاز حسین پاک آرمی کا سپاہی تھا، اس کے بھائی حاجی فدا حسین ایڈووکیٹ نے اپنی خاندانی زمین میں شہید کی یاد میں ایک وسیع مسجد بنوائی جو آبادی سے خاصی دور ہونے کی وجہ سے مطلوبہ رونق حاصل نہ کر سکی تو کچھ احباب نے انہیں مشورہ دیا کہ مسجد کے ساتھ دینی مدرسہ بنا دیں جس سے مسجد بھی آباد ہو گی اور قرآن کریم و دیگر دینی علوم کی تعلیم و تدریس سے شہید کو مستقل ثواب بھی ملتا رہے گا۔ انہوں نے یہ مشورہ قبول کرتے ہوئے وہاں دینی مدرسہ تعمیر کر دیا لیکن تعمیر مکمل ہونے سے چند ماہ قبل وہ خود اس دنیا سے کوچ کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اور اب ان کے بھائی آصف اعجاز صاحب مسجد و مدرسہ کے انتظامی امور کی دیکھ بھال کر رہے ہیں جبکہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے فاضل مولانا عصمت اللہ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ درس نظامی کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ 3 اکتوبر کو ظہر کے بعد اس مدرسہ کی افتتاحی تقریب تھی جس میں مولانا مفتی شاہد مسعود، مولانا یعقوب احسن، اور مفتی محمد فرقان کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا مفتی شاہد مسعود نے آج کی تقریب کے ایک پہلو پر بہت اچھی گفتگو کی ہے کہ ایک دینی مدرسہ کا آغاز ہو رہا ہے جس میں قرآن و سنت و دیگر دینی علوم کی تعلیم سے علاقہ کے عوام کو بہت فوائد حاصل ہوں گے۔ جبکہ میں دوسرے پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ مدرسہ ایک شہید کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے جس نے 1965ء کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اس کے خاندان نے اپنے شہید سپوت کی یاد کو تازہ رکھنے کا بہت خوبصورت اہتمام کیا ہے۔ آج کل پاک بھارت سرحد پر کشیدگی کا ماحول پھر سے دکھائی دے رہا ہے اس لیے میں اس موقع پر وطن کے دفاع کے حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی چند جھلکیاں آپ حضرات کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔
جناب رسول اللہؐ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے اور ایک ریاست کا ماحول بنا تو آنحضرتؐ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مدینہ منورہ اور اردگرد کے سب قبائل کو جمع کر کے مشترکہ حکومتی نظام کے ساتھ ساتھ مشترکہ دفاع کے معاہدہ کا اہتمام فرمایا۔ ’’میثاق مدینہ‘‘ میں سب نے مل کر طے کیا کہ مدینہ منورہ پر حملہ کی صورت میں اس کے دفاع کی ذمہ داری سب پر ہوگی اور مسلمان و کافر مل کر اس وطن کا تحفظ کریں گے۔ اس طرح آپؐ نے یہ اصول دیا کہ وطن کا دفاع سب اہل وطن کی مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے بعد دس سال کے دوران جناب نبی اکرمؐ نے دو درجن سے زائد جنگیں لڑیں جن میں صرف دو ایسی تھیں جن میں مدینہ پر حملہ کیا گیا تھا اور وہ مدینہ منورہ کے ماحول میں لڑی گئی تھیں۔ ایک احد کی جنگ اور دوسری احزاب کی جنگ تھی جن میں مدینہ منورہ دشمن کی یلغار کا نشانہ بنا تھا اور ان جنگوں میں دشمن کے ساتھ یہودیوں کی ساز باز کو ’’میثاق مدینہ‘‘ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کا ایکشن لیا گیا تھا۔
احد کی جنگ کے حوالہ سے دو باتوں کا بطور خاص ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلی بات کہ نبی اکرمؐ نے جنگ کے میدان میں جانے سے قبل مسلم سوسائٹی کو اعتماد میں لیا تھا اور سب کے مشورہ کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر جا کر جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن مدینہ سے زیادہ دور نہیں گئے تھے بلکہ آبادی سے باہر اس کے ساتھ ہی احد پہاڑ کے دامن کو میدان جنگ بنایا تھا جو کہ مشورہ میں پیش کی جانے والی دو مختلف تجویزوں کو جمع کرنے کی ایک صورت تھی۔ اور دوسری بات یہ کہ آنحضرتؐ ایک ہزار کا لشکر لے کر احد کے میدان میں گئے تھے جن میں سے تین سو افراد ساتھ چھوڑ کر واپس آگئے تھے جو عین حالت جنگ میں سنگین جرم اور غداری کے مترادف تھا۔ چنانچہ ان کے بارے میں یہ تجویز سامنے آئی کہ ان سے بھی جنگ کی جائے مگر حضورؐ نے اس موقع پر داخلی محاذ کھولنے سے گریز کیا اور کسی قسم کا کوئی ایکشن نہ لے کر مدینہ منورہ کے اندرونی ماحول کو خلفشار سے بچا لیا۔ جبکہ قرآن کریم نے بھی فمالکم فی المنافقین فئتین والی آیات میں حضورؐ کی اس حکمت عملی کی حمایت کر دی۔ یہ جناب رسول اللہؐ کی حکمت و تدبر کا شاہکار تھا کہ بیرونی جنگ کے ساتھ ساتھ اندرونی جنگ کا ماحول قائم نہ ہونے دیا اور داخلی وحدت کی ہرممکن حفاظت فرمائی۔
مدینہ منورہ پر دوسرا حملہ غزوۂ احزاب کے موقع پر ہوا تھا جس کے جواب میں حضورؐ نے جنگ کے روایتی طریقوں سے ہٹ کر ایک نیا اسلوب اختیار کیا جو فارسیوں کا طریقہ تھا کہ شہر کے دفاع کے لیے اردگرد خندق کھودی جائے۔ اس سے آنحضرتؐ کی یہ سنت اور ذوق سامنے آیا کہ جنگ کے لیے جو طریقہ بھی وقت کی ضرورت ہو اسے اختیار کیا جائے اور دنیا کے تجربات سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔
اس کے ساتھ ایک بات شہید اعجاز حسین کے حوالہ سے کہنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس نے چونڈہ کی جنگ میں جام شہادت نوش کیا تھا جب انڈیا نے سینکڑوں ٹینکوں کے ذریعہ خوفناک یلغار کی تھی۔ ظاہری طور پر ٹینکوں کی اتنی بڑی یلغار کا راستہ روکنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر پاک فوج کے بہادر جوان اپنے سینوں پر بم باندھ کر ان ٹینکوں کے نیچے گھس گئے اور اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دے کر اس یلغار کو ناکام بنا دیا۔ اس موقع پر یہ سوال اٹھا تھا کہ کیا یہ خودکشی نہیں ہے؟ اس کا جواب علماء کی طرف سے دیا گیا تھا کہ اس قسم کے خودکش حملے بسا اوقات جنگ کی ناگزیر ضرورت بن جاتے ہیں اس لیے یہ بھی جنگ کا ہتھیار ہیں جو میدان جنگ میں ہوں تو جائز اور ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔ البتہ میدان جنگ سے ہٹ کر کسی اور مقصد کے لیے اور پر امن ماحول میں اس قسم کی کاروائیاں بلاشبہ حرام ہیں اور ان کا کوئی جواز نہیں ہے۔
آج وطن عزیز کو پھر جنگ کی صورتحال کا سامنا ہے اس لیے ہمیں اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا کے ساتھ ساتھ اس کے لیے ہروقت تیار بھی رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت فرمائیں اور پوری قوم کو وحدت اور عزم کے ساتھ اس صورتحال کا سامنا کرنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۶ اکتوبر ۲۰۱۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter