Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

40 - 50
حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی
جنوبی لاہور کے علماء کرام کے ایک مقامی فورم کی سرگرمیوں کا مختصر تذکرہ گزشتہ کالم میں کر چکا ہوں، جبکہ 17 جنوری کو شمالی لاہور کے اسی طرح کے ایک فورم ’’متحدہ علماء دیوبند شاہدرہ‘‘ کے زیر اہتمام رانا ٹاؤن میں علماء کرام کے اجتماع میں حاضری کا موقع ملا۔ یہ فورم بھی علماء کرام اور خطباء کے درمیان علاقائی سطح پر رابطہ و معاونت کے فروغ کے لیے کئی سال سے کام کر رہا ہے۔ مجھے اس کے ابتدائی اجلاس میں شرکت کی سعادت بھی ان دنوں حاصل ہوئی تھی۔ اور اس فورم کے سرکردہ اور متحرک حضرات میں مولانا ذوالقرنین، مولانا محمد اسلم عثمانی، مولانا محمد اسماعیل محمدی، مولانا محمود الحسن اور مولانا غلام دستگیر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ گفتگو اس عنوان پر تھی کہ موجودہ حالات میں ہم کام کیسے کریں؟ جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حالات کے اتار چڑھاؤ سے یقیناًپریشانی ہوتی ہے لیکن یہ اتار چڑھاؤ تاریخ کا ناگزیر حصہ ہے او راہل حق کے سفر کے سنگ میل ہی مسائل و مشکلات اور مصائب و آلام ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سے گبھرانے کی ضرورت نہیں ہے اور میں اس سلسلہ میں دور نبویؐ کے دو تین واقعات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ ایسے حالات میں ہمیں کیسے کام کرنا چاہیے؟
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ کی طرف جا رہے تھے تو ظاہری کیفیت یہ تھی کہ چھپتے چھپاتے مدینہ منورہ پہنچنے کی کوشش تھی۔ عام راستے سے ہٹ کر سفر کر رہے تھے، اور زیادہ تر سفر رات کو کرتے تھے۔ اہل مکہ کی طرف سے بھیجی جانے والی بہت سی ٹولیاں تعاقب میں تھیں جن سے بچنے کے لیے تین دن غار ثور میں روپوش بھی رہے تھے۔ مگر جب دوران سفر سراقہ بن مالکؓ کا سامنا ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ میں تمہارے ہاتھ میں کسریٰ بادشاہ کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔ اپنے وقت پر یہ کنگن انہیں حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں پہنا بھی دیے۔ یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا مگر اس کے ساتھ اس میں یہ سبق بھی ہے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی کسی مسلمان کو اپنے مشن اور پروگرام سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور اپنے حوصلہ کی سطح کو قائم رکھنا چاہیے۔ غزوۂ خندق میں جب مدینہ منورہ کی آبادی پر خوف و ہراس کی کیفیت طاری تھی اور دشمن کے پہنچنے سے قبل خندق کو کھود لینا ہی سب سے اہم مسئلہ بن گیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چٹان پر کدال سے ضرب لگائی تو اس سے چنگاریاں پھوٹیں جن کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس چمک میں قیصر کے محلات دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی سبق تھا کہ حالات کی سنگینی وقتی بات ہے، ان کا حوصلے کے ساتھ سامنا کرو اور اپنے مقصد اور منزل کو نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دو۔
اس کے ساتھ ہی علماء کرام کو ایک اور واقعہ کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے جرنیل حضرت خالد بن ولیدؓ کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کا خطاب دیا تھا۔ مگر یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ خطاب انہیں کون سے کارنامے پر ملا تھا؟ موتہ کی جنگ میں حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت جعفر طیارؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی یکے بعد دیگرے شہادت کے بعد جب مسلمانوں کے لشکر کی کمان حضرت خالد بن ولیدؓ نے سنبھالی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اپنے ساتھیوں کو اس کی خبر دی اور فرمایا کہ اب مسلمانوں کی کمان اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولیدؓ) نے سنبھال لی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالدؓ کے لیے سیف اللہ کا لقب ارشاد فرمایا تھا۔ اس وقت ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے دشمن کی فوج کے نرغے میں گھرے ہوئے اپنے ساتھیوں کو بحفاظت وہاں سے نکال کر مدینہ منورہ میں ان کے گھروں تک پہنچا دیا تھا۔ اور اس عظیم خدمت پر سیف اللہ کے خطاب کے مستحق قرار پائے تھے، جبکہ ان کی واپسی پر مدینہ منورہ کے عام لوگوں نے انہیں ’’انتم الفرارون‘‘ (تم بھگوڑے) ہو، کہہ کر پکارا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاد صرف لڑنے اور ہر حال میں لڑتے رہنے کا نام نہیں ہے، بلکہ اپنے ساتھیوں کی حفاظت اور انہیں نرغے سے نکال کر گھر واپس لے آنا بھی جہاد کہلاتا ہے۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور صحابہ کرامؓ کے اسوہ حسنہ سے راہ نمائی حاصل کر کے حالات کی روشنی میں اپنے لیے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ اس پس منظر میں بطور مشورہ میں علماء کرام سے گزارش کروں گا کہ آج کے حالات کے دائرے میں رہتے ہوئے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ:
ہر قسم کے تصادم سے گریز کریں اور قانون و دستور کی حدود میں رہتے ہوئے دینی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔
دینی جدوجہد سے بالکل لا تعلق رہنا میرے نزدیک کسی بھی عالم کے لیے جائز نہیں ہے۔ علماء کرام کو دینی جدوجہد میں کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کرتے رہنا چاہیے۔
دینی جدوجہد کے تمام شعبے مثلاً نفاذ شریعت، دعوت و تبلیغ، جہاد، تحفظ ناموس رسالتؐ، عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت، دفاع صحابہ کرامؓ، دفاع حنفیت، دفاع مسلک وغیرہ سب دین کے شعبے ہیں، ان میں جس شعبہ کے ساتھ ذوق وابستہ ہو اس میں کام کرنا چاہیے۔
جبکہ ایک دوسرے کے کام کی نفی اور مخالفت سے ہر قیمت پر گریز کرنا چاہیے۔ آپ اپنے ذوق کے شعبہ میں کام کرتے ہوئے دوسرے کسی شعبہ کے ساتھیوں سے تعاون کر سکیں تو یہ بہت اچھی بات ہوگی۔ ورنہ مخالفت نہ کریں، ان کے کام کو ہلکا مت سمجھیں اور کسی کا مذاق نہ اڑائیں۔ کیونکہ ہمارا یہ باہمی تعاون و احترام ہی دینی جدوجہد میں مثبت پیش رفت کا ضامن ہوگا۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۹ جنوری ۲۰۱۵ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter