Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

31 - 50
نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات
امام ترمذیؒ نے ’’شمائل ترمذی‘‘ میں سیدنا حضرت امام حسینؓ سے روایت نقل کی ہے۔ انہوں نے سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روز مرہ کے معمولات اور شب و روز کی مصروفیات کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے اپنے سوال کو تین حصوں میں تقسیم کیا:
1- گھر کے اندر جناب رسول اللہؐ جو وقت گزارتے تھے اس کی ترتیب کیا تھی؟
2- گھر سے باہر کے معمولات اور انداز کیا تھا؟
3- مجلسی زندگی کے آداب اور انداز کیا تھا؟
حضرت علیؓ نے بتایا کہ آنحضرتؐ نے اپنے گھر کے اوقات اور معمولات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ وقت کا ایک حصہ اپنے ذاتی کاموں پر صرف کرتے تھے، دوسرا حصہ گھر والوں کے لیے مخصوص ہوتا تھا، اور تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہوتا تھا۔ حضورؐ اپنے ذاتی کاموں کے لیے مخصوص وقت میں ان خواص کے ساتھ ملاقات بھی کرتے تھے جو آپؐ کی خدمت میں گھر میں حاضر ہوتے تھے اور آپؐ کی مخصوص مجلس میں شریک ہوتے تھے۔ یہ مجلس روزانہ ہوتی تھی، کوئی ضرورت مند ہوتا تو وہ اپنا سوال لے کر آتا اور حضورؐ حسب موقع اس کی ضرورت پوری فرما دیتے تھے۔ آپؐ اس مجلس کے شرکاء کے ساتھ امت کے اجتماعی مسائل پر گفتگو فرماتے اور عام لوگوں کے معاملات میں ہدایات دیتے تھے۔ آپؐ نے مجلس میں خاص طور پر دو باتوں کی تلقین فرما رکھی تھی کہ مسلمانوں کے عمومی مفاد اور مصلحت کی کوئی بات ہو تو اسے دیگر لوگوں تک پہنچاؤ، اور یہ کہ کوئی شخص اپنی ضرورت اور حاجت کو حضورؐ تک براہ راست پہنچانے میں کوئی دقت یا حجاب محسوس کرتا ہو تو اس کا مسئلہ آپؐ تک پہنچایا جائے۔ اس سلسلہ میں نبی اکرمؐ یہ بھی ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اپنی ضرورت اور مسئلہ متعلقہ حکام تک پہنچانے کا موقع نہیں پاتا، اس کا مسئلہ متعلقہ حکام تک پہنچانے والے مسلمان کو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ثابت قدمی عطا فرمائیں گے۔ مجلس میں آنے والے جو لوگ سوالی ہو کر آتے تھے حضورؐ کے گھر سے کوئی چیز چکھے بغیر واپس نہیں جاتے تھے۔ اس مجلس میں جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ شریک ہونے والے بہترین افراد ہوتے تھے جو مجلس سے باہر کے لوگوں کے لیے رہنما کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ مجلس اسی قسم کی باتوں پر مشتمل ہوتی تھی اور ان سے ہٹ کر کوئی بات کہنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔
گھر سے باہر کی عمومی مجالس کی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ جناب نبی اکرمؐ مجلس کا آغاز بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ کرتے تھے اور مجلس کا اختتام بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر پر ہوتا تھا۔ حضورؐ جب کسی مجلس میں تشریف لے جاتے تو جہاں تک مجلس پہنچ چکی ہوتی وہیں بیٹھ جاتے اور اس بات کی تلقین بھی فرماتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ حضورؐ جس جگہ بیٹھ جاتے وہی جگہ مجلس کا صدر مقام بن جاتی تھی۔ ہر صاحب مجلس کو حضورؐ اس کا حصہ دیتے تھے اور کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ اسے دوسرے اصحاب مجلس سے کم توجہ مل رہی ہے۔ حضورؐ کے سامنے کوئی شخص اپنا مسئلہ پیش کرتا یا کسی مسئلے پر بات کرتا تو آپؐ اس کی پوری بات سنتے تھے اور جب تک وہ اپنی بات مکمل نہ کر لیتا اس سے رخ نہیں پھیرتے تھے۔ کوئی شخص حضورؐ کے سامنے اپنی ضرورت کا اظہار کرتا تو آپ اس کی ضرورت پوری کرتے یا نرمی کے ساتھ تسلی کی کوئی بات فرما دیتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس علم کی مجلس ہوتی تھی، حیا کی مجلس ہوتی تھی، کسی پر الزام تراشی نہیں ہوتی تھی، کسی پر تہمت نہیں لگائی جاتی تھی، کسی کی غلطی کو اچھالا نہیں جاتا تھا، اور آپؐ اپنے ساتھیوں کے لیے باپ جیسے شفیق ہوتے تھے۔
مجلس سے ہٹ کر جناب نبی اکرمؐ کا عمومی انداز اور طرز عمل یہ ہوتا تھا کہ بے مقصد باتوں سے اپنی زبان کو بچاتے تھے اور وہی بات فرماتے تھے جس کی ضرورت ہوتی تھی۔ لوگوں کو قریب کرنے کی بات کرتے تھے، دور کرنے والی باتوں سے گریز کرتے تھے۔ کسی قوم کا بڑا آپ کے پاس آتا تو اس کا اکرام کرتے تھے اور اس کے ساتھ اسی سطح کا معاملہ فرماتے تھے۔ لوگوں کو اللہ کا خوف دلاتے رہتے تھے۔ لوگوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بے تکلف نہیں ہوتے تھے مگر کسی کو بے رخی کا احساس بھی نہیں ہونے دیتے تھے۔ اپنے ساتھیوں کے حالات معلوم کرتے تھے اور اگر کوئی غیر حاضر ہوتا تو اس کی تحسین فرماتے اور اسے تقویت دیتے۔ آپؐ اگر کوئی قبیح معاملہ دیکھتے تو اس کی قباحت کا ذکر کرتے اور حوصلہ شکنی کرتے تھے۔
حضورؐ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ لوگ خیر کے معاملات سے غافل نہ ہو جائیں اور اس بات کا بھی اہتمام کرتے تھے کہ وہ اکتا نہ جائیں۔ ہر قسم کے معاملے کا آپ کے پاس حل تیار ہوتا تھا اور ہر صورتحال کے لیے مستعد ہوتے تھے۔ آپؐ حق بات کہنے سے نہیں کتراتے تھے اور ضرورت سے زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ لوگوں میں سے آپؐ سے زیادہ قریب وہی حضرات ہوتے تھے جو اچھے لوگ ہوتے تھے۔ جناب نبی اکرمؐ کے ہاں سب سے زیادہ قابل احترام وہی شخص ہوتا تھا جو لوگوں کے ساتھ نصیحت او رخیر خواہی کا جذبہ رکھتا ہو اور آپؐ کے ہاں اس شخص کو زیادہ قدر حاصل ہوتی تھی جو عام لوگوں کے ساتھ غم خواری اور مدد میں پیش پیش ہوتا تھا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روز مرہ معمولات اور طرز عمل کے بارے میں یہ ارشادات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہیں۔ جبکہ بخاری شریف کی ایک راویت کے مطابق ایک بار چند نوجوان صحابہ کرامؓ نے باہمی مشورہ کر کے حضورؐ کے گھر کے اندر کے معمولات معلوم کرنا چاہے تاکہ وہ بھی ان معمولات کی پیروی کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے امہات المومنینؓ کی خدمت میں باری باری حاضری دی اور دریافت کیا کہ آنحضرتؐ جب گھر کے اندر تشریف لاتے ہیں تو آپؐ کے معمولات کیا ہوتے ہیں؟ ازواج مطہراتؓ میں سے ہر ایک کا جواب یہ تھا کہ گھر کے اندر آپؐ کے معمولات کم و بیش وہی ہوتے ہیں جو ہر گھر کے سربراہ کے ہوتے ہیں۔ آپؐ آرام فرماتے ہیں، بیوی بچوں کو وقت دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، آنے جانے والوں کے حالات دریافت کرتے ہیں، گھر کا کوئی کام کاج ہو تو اس میں ازواج مطہراتؓ کا ہاتھ بٹاتے ہیں، حتیٰ کہ جوتا گانٹھ لیتے ہیں، چارپائی کی مرمت کر لیتے ہیں اور اس طرح کے ضرورت کے کام آپؐ خود کر لیا کرتے ہیں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ پاکستان، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۳ فروری ۲۰۱۲ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter