Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

17 - 50
رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام
غزوۂ بدر میں ابوجہل کے قتل ہو جانے کے بعد قریش کی سرداری ابو سفیان نے سنبھال لی اور فتح مکہ تک تمام معرکوں میں وہ قریش کی کمان کرتے رہے لیکن فتح مکہ کے بعد وہ مسلمان ہوگئے تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ اپنے دور جاہلیت کے واقعات سنایا کرتے تھے۔ انہی میں سے ایک واقعہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے ان سے روایت کیا ہے اور امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کے پہلے باب میں اسے نقل کیا ہے۔
یہ اس دور کی بات ہے جب جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش مکہ کے درمیان حدیبیہ میں دس سال تک آپس میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہو چکا تھا۔ اور عارضی مصالحت کے اس دور میں جہاں جناب نبی اکرمؐ مختلف علاقوں کے حکمرانوں اور بادشاہوں کو اسلام کی دعوت کے خطوط بھجوا رہے تھے وہاں مکہ کے قریشی بھی تجارت کے لیے آزادانہ گھوم پھر رہے تھے۔
رسول اکرمؐ نے اس وقت کی ایک بڑی بلکہ سب سے بڑی سلطنت رومن ایمپائر کے حکمران ہرقل کو بھی، جو قیصر روم کہلاتا تھا، دعوت اسلام کا خط بھجوایا۔ یہ خط حضرت دحیہ کلبیؓ لے کر گئے۔ شام اس دور میں رومی سلطنت کا حصہ تھا اور قیصر روم شام کے دورے پر ایلیا میں آیا ہوا تھا۔ جبکہ جناب ابو سفیان بھی ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ وہیں قیام پذیر تھے۔ آنحضرتؐ کا ہرقل کے نام خط لے کر حضرت دحیہ کلبیؓ وہاں پہنچے۔ ہرقل کو اطلاع دی گئی کہ حجاز سے ایک قاصد آیا ہوا ہے جو نئے نبی حضرت محمدؐ کا خط اسے پیش کرنا چاہتا ہے۔ ہرقل نے خط وصول کرنے سے قبل حضورؐ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ضروری سمجھا اور اپنے اہلکاروں سے کہا کہ ان کے علاقے سے اگر کچھ لوگ یہاں آئے ہوں تو انہیں میرے پاس لایا جائے تاکہ میں ان سے اس نئے نبی کے بارے میں دریافت کر سکوں۔ سرکاری کارندوں نے جناب ابو سفیان کو ڈھونڈ نکالا اور انہیں قیصر روم کے دربار میں پیش کر دیا۔ حضرت ابو سفیانؓ فرماتے ہیں کہ قیصر روم نے ہمیں دیکھ کر کہا کہ تم میں سے جو شخص اس نئے نبی سے زیادہ قریبی تعلق رکھتا ہو وہ آگے آجائے جس پر میں آگے بڑھ گیا اور باقی ساتھی میرے پیچھے تھے۔
قیصر نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے کچھ سوالات کروں گا، ان کے صحیح جواب دینا۔ اور میرے ساتھیوں سے کہا کہ اگر یہ کسی سوال کے جواب میں غلطی کرے تو تم اسے ٹوک دینا۔ اس کے بعد قیصر روم نے سوالات کیے جنہیں ترتیب وار پیش کیا جا رہا ہے۔
قیصر: اس شخص کا خاندان اور نسب کیا ہے؟
ابو سفیان: یہ معزز ترین خاندان سے ہے۔
قیصر: اس خاندان میں پہلے کوئی بادشاہ گزرا؟
ابو سفیان: نہیں۔
قیصر: اس کے خاندان میں پہلے کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا؟
ابو سفیان: نہیں۔
قیصر: اس کے پیروکار کمزور لوگ ہیں یا خوشحال؟
ابو سفیان: کمزور لوگ زیادہ ہیں۔
قیصر: ان کی تعداد بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے؟
ابو سفیان: دن بدن بڑھ رہی ہے۔
قیصر: کوئی شخص اس پر ایمان لانے کے بعد مرتد بھی ہوا؟
ابو سفیان: نہیں۔
قیصر: تمہیں اس شخص پر کبھی جھوٹ کا شک گزرا؟
ابو سفیان: نہیں۔
قیصر: کبھی کسی معاہدے سے اس نے غداری کی؟
ابو سفیان: ہم اس وقت معاہدہ کے دور سے گزر رہے ہیں، دیکھیں کیا کرتا ہے۔
قیصر: تمہاری کبھی جنگ بھی ہوئی اور کیا نتیجہ نکلا؟
ابو سفیان: متعدد جنگیں ہوئیں، کبھی وہ جیتا اور کبھی ہم۔
قیصر: اس کی تعلیمات کیا ہیں؟
ابو سفیان: وہ کہتا ہے کہ ایک اللہ کی بندگی کرو، تمہارے باپ دادا نے جو بت بنا رکھے ہیں انہیں چھوڑ دو۔ اس کے ساتھ وہ کہتا ہے کہ نماز پڑھو، سچائی اختیار کرو، پاک دامن رہو، صلہ رحمی کرو، امانت ادا کرو، اور وعدہ پورا کرو۔
اس پر قیصر روم نے اپنے سوالات پر عمومی تبصرہ کیا کہ اگر اس کے خاندان میں پہلے کوئی نبی یا بادشاہ قریب زمانہ میں گزرا ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ صاحب اس کی نقل کر رہے ہیں اور اس طریقہ سے بادشاہت دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ باقی باتیں جتنی بتائی گئی ہیں وہ انبیاء ہی کے شایان شان ہیں کہ ان کا تعلق شریف اور معزز خاندانوں سے ہوتا ہے اور ان پر ایمان لانے والا کوئی شخص انہیں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ انبیاء سچے لوگ ہوتے ہیں، معاہدوں کی پابندی کرتے ہیں، ان کے ساتھ جنگوں میں اتار چڑھاؤ کے معاملات رہتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبروں کی تعلیمات وہی ہوتی ہیں جو تم نے ان صاحب کے حوالہ سے بتائی ہیں۔
اس تبصرہ کے بعد قیصر روم نے کہا کہ میرے سوالات کے جواب میں جو کچھ تم نے کہا ہے اگر یہ سب اسی طرح ہے تو یہ شخص میرے ان قدموں کی جگہ کا مالک ہو کر رہے گا۔ اور اگر میرے بس میں ہو تو میں ان صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے پاؤں خود اپنے ہاتھوں سے دھوؤں۔ اس موقع پر قیصر روم نے یہ بھی کہا کہ مجھے اس بات کا اندازہ تو تھا کہ ایسے ایک پیغمبر کا ظہور ہونے والا ہے لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ پیغمبر تم عربوں میں سے ہوگا۔
حضرت ابو سفیانؓ کہتے ہیں کہ قیصر روم نے ان سے سوالات کرنے کے بعد تبصرہ کیا اور اس کے بعد حضرت دحیہ کلبیؓ نے بادشاہ کو جناب نبی اکرمؐ کا گرامی نامہ پیش کیا جس کا مضمون یہ ہے۔
اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔
سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام قبول کر لو سلامتی پا جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں دوہرا اجر عطا فرمائیں گے۔ اور اگر تم نے انکار کیا تو رومیوں کا گناہ تجھ پر ہوگا ۔ اے اہل کتاب آؤ اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی بندی نہ کریں۔ اور ہم میں سے کچھ لوگ دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے سوا اپنا رب نہ بنائیں۔ پس اگر وہ اہل کتاب اعراض کریں تو تم (اہل اسلام) کہہ دو کہ ہم تو اس بات کو قبول کرنے والے ہیں۔
حضرت ابو سفیانؓ کہتے ہیں کہ قیصر روم کی یہ باتیں سن کر دربار میں ہر طرف شور مچ گیا اور مختلف اطراف سے آوازیں بلند ہونے لگیں جس پر ہمیں دربار سے نکال کر دروازے بند کر دیے گئے۔ میں نے باہر آتے ہی اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشۃ کی بات تو پوری ہونے لگی ہے۔ رومیوں کا بادشاہ بھی اس سے خوف کھاتا ہے۔ اس کے بعد میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اب اسلام کا غلبہ ہو کر رہے گا۔ حتیٰ کہ اسلام میرے دل میں داخل ہوگیا اور میں نے بالآخر اسلام قبول کر لیا۔ ابوکبشۃ حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے خاوند کو کہا جاتا تھا جو آنحضرتؐ کی رضاعی ماں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حلیمہؓ کا بچپن میں دودھ پیا تھا جس کی نسبت سے حضرت ابوکبشۃ جناب نبی اکرمؐ کے رضاعی باپ بن گئے تھے۔ مشرکین مکہ اسی وجہ سے حقارت آمیز لہجہ میں آنحضرتؐ کو ابوکبشۃ کا بیٹا کہا کرتے تھے۔
آپؐ کا خط پڑھے جانے کے بعد دربار میں شور و غوغا ہوا تو ابو سفیان اور ان کے ساتھیوں کو دربار سے نکال کر دروازے بند کر دیے گئے۔ لیکن بادشاہ کے دربار میں کیا ہوا؟ وہ شام کے اس وقت کے چیف پادری ابن ناطورا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے جو بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی اس روایت میں مذکور ہے۔
ابن ناطورا اس واقعہ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیصر روم ہرقل بادشاہ ایک روز صبح کے وقت انتہائی سست اور پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ قریبی ساتھیوں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ میں رات ستاروں کو دیکھ رہا تھا تو ستاروں کی چال سے مجھے معلوم ہوا کہ ملک الختان کا ظہور ہوگیا ہے یعنی ختنے والوں کا بادشاہ ظاہر ہوگیا ہے اور اس کے غلبہ کا دور شروع ہونے والا ہے۔ اس لیے یہ بات معلوم کرنے کی کوشش کرو کہ ختنہ کرنے ولے لوگ کون اور کہاں ہیں؟ سرکاری پادریوں اور مصاحبوں نے جواب دیا کہ یہودی ختنہ کرتے ہیں لیکن وہ تو اس پوزیشن میں نہیں کہ ہمیں پریشان کر سکیں۔ وہ بہت تھوڑی تعداد میں ہیں، آپ مدائن کے حاکم کو حکم دیں وہ ان کا خاتمہ کر دے گا۔ اس دوران غسان کے بادشاہ نے قیصر روم کو خبر دی کہ حجاز میں ایک نئے نبی کا ظہور ہوا ہے۔ قیصر نے دریافت کیا کہ کیا یہ لوگ ختنہ کرتے ہیں؟ جواب ملا کہ ہاں ان کے ہاں ختنہ ہوتا ہے۔ تو اس وقت سے قیصر روم کے دل میں جناب نبی کریمؐ کے بارے میں بات بیٹھ گئی۔
ابن ناطورا کے مطابق ہرقل بادشاہ نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ یہ اس امت نسل انسانی کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہو چکا ہے۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ایک صاحب علم اور ساتھی کو ساری تفصیل لکھ کر روانہ کی اور اس سے رائے چاہی جبکہ بادشاہ خود حمص کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہ جب حمص پہنچا تو اس کے پاس اس صاحب علم ساتھی کا جواب آچکا تھا ، اس نے ہرقل کی رائے کی تائید کرتے ہوئے کہا تھا کہ مکہ میں جس کا ظہور ہوا ہے وہ واقعی نبیؐ ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے حمص کے ایک ہال میں روم کے سرداروں کو جمع کیا اور ان کو ساری بات بتاتے ہوئے کہا کہ اگر تم فلاح اور رشد چاہتے ہو اور یہ چاہتے ہو کہ تمہاری بادشاہت قائم رہے تو اس نبیؐ کے ہاتھ پر بیعت کر لو۔ یہ سن کر ہال میں شور مچ گیا، طرح طرح کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور بہت سے لوگ وحشی گدھوں کی طرح ہال سے باہر کی طرف بھاگنے لگے۔ اس پر ہرقل بادشاہ نے انہیں باہر جانے سے روکا اور کہا کہ ٹھہرو میں تو یہ باتیں تمہارے امتحان کے لیے کر رہا تھا تاکہ تمہارے ایمان کی مضبوطی دیکھوں اور وہ میں نے دیکھ لی ہے۔ قیصر روم کے اس اعلان پر درباریوں کے قدم رک گئے اور وہ واپس آکر بادشاہ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔
یوں سچ اور اقتدار کے درمیان وہ کشمکش اپنے انجام کو پہنچی جس نے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے مطلق العنان حکمران کے ذہن میں کچھ عرصہ سے ہلچل مچا رکھی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقتدار والوں کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں اور وہ ایک حقیقت کو جانتے ہوئے بھی اس کے اعتراف سے کیوں رک جاتے ہیں۔
آج پھر تاریخ خود کو دہرا رہی کہ نسل انسانی اخلاقی، معاشرتی اور معاشی طور پر ہولناک تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ استحصال اور ظلم و غصب نے عالمی نظام کے خوشنما لیبل کے ساتھ پورے انسانی معاشرہ پر اپنے خونی پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ ہر طرف افراتفری اور جبر و تشدد کا دور دورہ ہے، پسے ہوئے طبقات دنیا کے ہر خطے میں کسی نجات دہندہ کی راہ تک رہے ہیں، اور اعلیٰ دانش گاہوں میں موجودہ ورلڈ سسٹم کی ناکامی اور تباہ کاریوں کا تجزیہ کرتے ہوئے متبادل سسٹم کی تلاش جاری ہے۔ یہ بات اب ہر ایک کی سمجھ میں آرہی ہے کہ آسمانی تعلیمات اور وحی کی طرف واپسی کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ اور یہ بھی ہر ایک کو معلوم ہے کہ انبیاء کرام کی تعلیمات اور وحی الٰہی کا محفوظ ذخیرہ صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے۔ اس کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گرامی نامہ تاریخ کے ایک عظیم الشان ریکارڈ کے طور پر آج کے قیصروں، بادشاہوں اور حکمرانوں کو بھی مسلسل دعوت دے رہا ہے کہ ’’اسلام قبول کر لو سلامتی پا جاؤ گے۔‘‘
لیکن بات یہ ہے کہ جب مسلم ممالک کے دارالحکومتوں میں بیٹھے ہوئے حکمران اس پیغام کو سننے کے لیے تیار نہیں ہیں تو دوسروں سے اس کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ آج کے مسلمان حکمران انسانی سوسائٹی پر اسلامی احکام و قوانین کی عملداری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ وہ جناب نبی اکرمؐ کا کلمہ پڑھتے ہوئے، آپؐ کی محبت کا دم بھرتے ہوئے، اور آپؐ کے ساتھ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے بھی اس آخر الزمان پیغمبرؐ کے سلامتی کے پیغام کے حوالہ سے ’’قیصر روم‘‘ بنے بیٹھے ہیں۔ مگر تاریخ کسی ایک جگہ رک نہیں جایا کرتی، وہ اپنی طبعی رفتار کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور ’’قیصر‘‘ اپنی تمام تر شوکت و سطوت کے باوجود اس کے دھندلکوں میں گم ہو جایا کرتے ہیں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۱۶ و ۱۸ دسمبر ۲۰۰۰ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter