Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

19 - 50
سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم
(۱۶ مئی ۲۰۰۲ء کو شیخ زید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام ’’سیرت النبیؐ کانفرنس‘‘ میں خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں شیخ زید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور کا شکر گزار ہوں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے موضوع پر منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت اور گفتگو کے اعزاز سے نوازا اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمارے مل بیٹھنے کو قبول فرماتے ہوئے کچھ مقصد کی باتیں کہنے، سننے اور پھر ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مجھے گفتگو کے لیے ’’سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے جس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ حتیٰ کہ تذکرہ بھی اس مختصر وقت میں ممکن نہیں ہے اس لیے بہت سے امور کو نظر انداز کرتے ہوئے چند ایک ایسے سوالات کا جائزہ لینا چاہوں گا جو جہاد کے حوالے سے آج کے دور میں عالمی سطح پر موضوع بحث ہیں اور ان کے بارے میں مثبت اور منفی طور پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔
’’جہاد‘‘ کا لفظ لغوی مفہوم کے حوالے سے کوشش، محنت ومشقت اور تگ ودو کی مختلف شکلوں کا احاطہ کرتا ہے اور اسے دینی پس منظر میں لیا جائے تو اسلام کی سربلندی، دعوت وتبلیغ، ترویج وتنفیذ، اور تحفظ ودفاع کے لیے کی جانے والی مختلف النوع عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی خواہشات پر کنٹرول اور نفس کی اصلاح کی مساعی پر بھی جہاد کا لفظ بولا گیا ہے جس کی قرآن وسنت میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔
لیکن جہاد کا ایک خصوصی مفہوم ’جنگ‘ اور ’محاربہ‘ بھی ہے جسے قرآن کریم میں ’جہاد فی سبیل اللہ‘ اور ’قتال‘ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے اور سینکڑوں آیات قرآنی اور ہزاروں احادیث نبویہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور اس ’جہاد‘ کے فضائل‘ احکام‘ مسائل اور مقصدیت پر قرآن وسنت میں پورے اہتمام کے ساتھ جابجا روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کافروں کے خلاف میدان جنگ میں صف آرا ہو کر ہتھیاروں کے ساتھ ان سے معرکہ آرائی کرنا اور قتل وقتال کے ذریعے سے کفر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا جس کی اہمیت وفضیلت پر قرآن کریم اور سنت نبویؐ کی سینکڑوں تصریحات گواہ ہیں۔ اور اس کو آج کے دور میں اس وجہ سے سب سے زیادہ تنقید واعتراض کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جدید عقل ودانش کے نزدیک عقیدہ ومذہب کے فروغ اور غلبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا تہذیب وتمدن کے تقاضوں کے خلاف ہے اور ایسا کرنا بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دائرے میں آتا ہے۔
اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ عقیدہ ومذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے اور باطل مذاہب پر حق مذہب کی بالادستی کے لیے عسکری جنگ لڑنے کا آغاز حضرت محمد رسول اللہؐ نے نہیں کیا بلکہ جہاد کا یہ عمل آسمانی ادیان میں پہلے سے تسلسل کے ساتھ چلا آ رہا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے اس حوالے سے تاریخ میں کسی نئے عمل اور اسلوب کا اضافہ کرنے کے بجائے آسمانی مذاہب کی ایک مسلسل روایت کو برقرار رکھا ہے۔ چنانچہ جس طرح قرآن کریم میں جہاد اور مجاہدین کا تذکرہ پایا جاتا ہے، اسی طرح بائبل میں بھی ان مجاہدین اور مذہبی جنگوں کا ذکر موجود ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے مذہب کے دفاع اور اپنی آزادی اور تشخص کے تحفظ کے لیے لڑیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم نے فلسطین کی سرزمین پر لڑی جانے والی ایک مقدس جنگ کا سورۃ البقرۃ میں تذکرہ کیا ہے جو جالوت جیسے ظالم حکمران کے خلاف حضرت طالوت کی قیادت میں لڑی گئی اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت بادشاہ کا معجزانہ طور پر خاتمہ ہوا۔ اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے اور اس میں حضرت طالوت کو’ساؤل بادشاہ‘ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔
اس لیے آگر آج کی جدید دانش کو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے پر اعتراض ہے تو اس کا ہدف صرف قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی نہیں بلکہ اصولی طور پر بائبل اور بنی اسرائیل یعنی یہود ونصاریٰ کی پوری تاریخ اس کی زد میں ہے، صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ بائبل کے ماننے والوں نے بائبل پر ایمان کے دعوے کے باوجود اس کے عملی احکام اور ماضی سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے جبکہ قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے تمام تر عملی کم زوریوں کے باوجود اپنے ماضی اور قرآنی احکام وتعلیمات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس وضاحت کے بعد جہاد کی مقصدیت کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جہاد کا مقصد آنحضرتؐ نے اعلاء کلمۃ اللہ قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو جس کا مطلب عملی طو رپر یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی میں حکم اور قانون کا درجہ انسانی خواہشات اور ظن وگمان کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور آسمانی تعلیمات کو حاصل ہونا چاہیے۔ اور کلمۃ اللہ کی اسی سربلندی کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ نے آسمانی مذاہب کی ان دینی معرکہ آرائیوں کے تسلسل کو باقی رکھا ہے تاکہ کسی دور میں بھی انسانی خواہشات اور عقل وگمان کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر غلبہ حاصل نہ ہونے پائے اور انسانی سوسائٹی پر اللہ تعالیٰ کے احکام کی عمل داری کے جس مشن کے لیے حضرت انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے ہیں، اس میں تعطل واقع نہ ہو۔ چنانچہ جناب رسول اللہؐ نے ایک ارشاد مبارک میں یہ کہہ کر اس جدوجہد کے قیامت تک جاری رہنے کا اعلان فرما دیا ہے کہ الجھاد ماض الی یوم القیامۃ۔
یہ فکر وفلسفہ کی جنگ ہے، اسلوب زندگی کی معرکہ آرائی ہے، اور تہذیب وثقافت کا محاذ ہے جس میں شروع سے آسمانی مذاہب کا یہ موقف رہا ہے اور اب آسمانی مذاہب وادیان کے حقیقی وارث کی حیثیت سے اسلام کا موقف بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی اور اس کے مسائل کے حل کے لیے انسانی خواہشات اور عقل و دانش تنہا کفایت نہیں کرتیں بلکہ ان پر آسمانی تعلیمات کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ اس ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ (Check & balance) کے بغیر انسانی خواہشات اور انسانی عقل کے لیے پوری نسل انسانی کی ضروریات ومفادات میں توازن قائم رکھنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تہذیب جدید نے آسمانی تعلیمات سے دستبرداری کا اعلان کر کے خواہشات اور عقل ہی کو تمام امور کی فائنل اتھارٹی قرار دے رکھا ہے جس سے توازن بگڑ گیا ہے، اجتماعی اخلاقیات دم توڑ گئی ہیں، طاقت کا بے لگام گھوڑا وحی الٰہی کی لگام سے آزاد ہو گیا ہے، اور پوری دنیا میں ہر طرف جنگل کے قانون (Might is right) کا دور دورہ ہے۔
آج کی جدید دانش نے چونکہ مذاہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر کے شخصی زندگی کے دائروں میں محدود کر دیا ہے اس لیے عقل جدید کے نزدیک مذہب کو وہ مقام حاصل نہیں رہا کہ اس کے لیے ہتھیار اٹھائے جائیں اور اس کے فروغ وتنفیذ کے لیے عسکری قوت کو استعمال میں لایا جائے ورنہ ہتھیار تو آج بھی موجود ہیں اور جتنے ہتھیار آج پائے جاتے ہیں اور تیار ہو رہے ہیں، انسانی تاریخ میں ا سے قبل کبھی نہیں دیکھے گئے۔ یہ ہتھیار استعمال بھی ہوتے ہیں اور وہ تباہی لاتے ہیں کہ اس سے قبل کی انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے مگر ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے والوں کے مقاصد اور عنوانات مختلف ہیں:
جرمنی نے جرمن نسل کی برتری کے عنوان سے ہتھیار بنائے اور دو عظیم جنگوں میں پوری دنیا کے لیے تباہی کا سامان فراہم کیا۔
روس نے محنت کشوں کی طبقاتی بالادستی کے نام پر عسکری قوت کا بے تحاشا استعمال کیا اور نسل انسانی کے ایک بڑے حصے کو تہہ تیغ کر دیا۔
اسرائیل ایک نسلی مذہب کی برتری کے لیے اپنے سائز سے سینکڑوں گنا زیادہ ہتھیار جمع کیے ہوئے ہے اور فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی (Genocide) میں مصروف ہے۔
اور امریکہ نے مغربی تہذیب وثقافت کے تحفظ کے نام پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر نسلی برتری، طبقاتی بالادستی، اور تہذیب وثقافت کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھانا اور صرف اٹھانا نہیں بلکہ اسے وحشیانہ انداز میں اندھا دھند استعمال کر کے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا دہشت گردی نہیں ہے تو آسمانی تعلیمات کے فروغ اور وحی الٰہی کی بالادستی کے لیے ہتھیار اٹھانے کو کون سے قانون اور اخلاقیات کے تحت دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے؟
باقی تمام پہلوؤں سے صرف نظر کرتے ہوئے آج کی معروضی صورت حال (Scenario) میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے طرز عمل کا جائزہ لے لیں کہ افغانستان اور دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں اسلام کے اجتماعی نظام کے نفاذ کا نام لینے والوں کے خلاف ’’عالمی اتحاد‘‘ کے پرچم تلے جو وحشیانہ فوج کشی جاری ہے، اس کے جواز میں اس کے علاوہ اب تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جا سکی کہ اسلام کا نام لینے والے ان مبینہ انتہاپسندوں سے آج کی عالمی تہذیب کو خطرہ ہے، بالادست ثقافت کو خطرہ ہے، اور بین الاقوامی نظام کو خطرہ ہے، اس لیے ان انتہا پسندوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عقیدہ ومذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے کو دہشت گردی کہنے والے خود ایک مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے میدان جنگ میں مسلسل صف آرا ہیں۔
میری اس گزارش کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک عقیدہ، فلسفہ، اور تہذیب کے تحفظ کے لیے ہتھیا ر اٹھانے اور اسے بے دریغ استعمال کرنے کا ایک فریق کو حق حاصل ہے تو اس کے خلاف دوسرے عقیدہ، فلسفہ، اور تہذیب کے علمبرداروں کو ہتھیار اٹھانے کے حق سے کسی طرح محروم نہیں کیا جا سکتا اور ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کے لیے یہ کوئی وجہ جواز (Excuse)نہیں ہے کہ چونکہ ایک فریق کے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت زیادہ ہے اور اسے ان ہتھیاروں کے استعمال کے مواقع زیادہ میسر ہیں، اس لیے اسے تو ہتھیار بنانے اور چلانے کا حق حاصل ہے، اور دوسرا فریق اس صلاحیت میں کمزور اور ان مواقع کی فراوانی سے محروم ہے اس لیے اسے اس کا سرے سے کوئی حق نہیں ہے۔
آج امریکہ اور اس کے اتحادی اس بات پر مطمئن ہیں کہ جو جنگ وہ لڑ رہے ہیں، وہ اعلیٰ مقاصد کی خاطر لڑی جا رہی ہے، انسانیت کی بھلائی کی جنگ ہے، اور ان کے بقول اعلیٰ ترین تہذیبی اقدار کے تحفظ کی جنگ ہے۔ جنگ کی اسی مقصدیت کی وجہ سے انہیں اس عظیم جانی ومالی نقصان کی کوئی پروا نہیں ہے جو دنیا بھر میں ان کے ہاتھوں مسلسل جاری ہے۔ انسان مر رہے ہیں، عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں، بچے یتیم ہو رہے ہیں، عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو رہی ہیں، ملکوں اور قوموں کی معیشتیں تباہ ہو رہی ہیں، اور امن وامان کا توازن مسلسل بگڑتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن ایسا کرنے والے چو نکہ اپنے زعم کے مطابق یہ سب کچھ اعلیٰ مقاصد کے لیے کر رہے ہیں اور ان اقدامات کے ذریعے سے اعلیٰ تہذیب وثقافت کا تحفظ کر رہے ہیں اس لیے ان کے خیال میں یہ سب کچھ جائز ہے اور جنگ کا حصہ ہے جسے کسی چون وچرا کے بغیر پوری نسل انسانی کو برداشت کرنا چاہیے۔ یہی بات اسلام کہتا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ نسل انسانی کے لیے نجات کا راستہ انسانی خواہشات اور صرف انسانی عقل نہیں ہے بلکہ وحی الٰہی کی نگرانی اور آسمانی تعلیمات کی برتری انسانی سوسائٹی کے لیے ضروری ہے۔ اور اسلام کے نزدیک انسانیت کی اعلیٰ اقدار اور تہذیبی روایات کا سرچشمہ انسانی خواہشات اور عقل محض نہیں بلکہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہیں اس لیے ایک مسلمان اگر ان مقاصد کے لیے ہتھیار اٹھاتا ہے تو دنیا کی مسلمہ روایات اور تاریخی عمل کی روشنی میں اسے یہ کہہ کر اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ مخالف فریق کے نزدیک اس کا یہ عمل دہشت گردی قرار پا گیا ہے۔
اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن وسنت کی رو سے جہاد کی چند عملی صورتوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے حوالے سے جہاد کے ایک حکم کا تذکرہ سورۃ المائدہ میں کیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے چنگل سے بنی اسرائیل کو نکال کر صحرائے سینا میں خیمہ زن ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو حکم ملا کہ وہ ’’بیت المقدس‘‘ کو عمالقہ سے آزاد کرنے کے لیے جہاد کریں اور آگے بڑھ کر حملہ آور ہوں۔ مگر غلامی کے دائرے سے تازہ تازہ نکلنے والی مرعوب قوم کو اس کا حوصلہ نہ ہوا اور پھر اس کے چالیس سال بعد بنی اسرائیل کی نئی نسل نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں جنگ لڑ کر بیت المقدس کو آزاد کرایا۔
قرآن کریم نے بنی اسرائیل ہی کے حوالے سے ایک اور جہاد کا تذکرہ کیا ہے جس کا حوالہ ہم پہلے بھی دے چکے ہیں کہ جالوت نامی ظالم بادشاہ نے فلسطین کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر کے بنی اسرائیل کو مظالم کا شکار بنانا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت سموئیل علیہ السلام کے حکم پر طالوت بادشاہ کی قیادت میں بنی اسرائیل کی مٹھی بھر جماعت نے جالوت کا مقابلہ کیا اور اسے میدان جنگ میں شکست دے کر فلسطین کے علاقے آزاد کرائے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کفار مکہ کے خلاف پہلے بڑے معرکے کی قیادت بدر کے میدان میں کی اور قریش کو شکست دے کر شاندار کام یابی حاصل کی۔ یہ جنگ قریش مکہ کے ان عزائم پر ضرب لگانے کے لیے بپا ہوئی تھی جو وہ اسلام کو ختم کرنے اور جناب نبی اکرمؐ اور ان کی جماعت کو ناکام بنانے کے لیے اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس کے بعد ’احد‘ اور ’احزاب‘ کی جنگیں بھی اسی پس منظر میں تھیں اور اس کشمکش کا خاتمہ اس وقت ہوا جب آپؐ نے ۸ھ میں خود پیش قدمی کر کے مکہ مکرمہ پر قبضہ کر لیا۔
یہود مدینہ کے ساتھ آنحضرتؐ نے امن وامان کے ماحول میں وقت بسر کرنے کی کوشش کی لیکن یہودیوں کی سازشوں اور عہد شکنیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہ رہا تو آپؐ نے یہودیوں کے سب سے بڑے مرکز (Stronghold) خیبر پر حملہ آور ہو کر اسے فتح کر لیا اور یہود کا زور توڑ دیا۔
قیصر روم کے باج گزاروں نے مسلمانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور یہ خبر ملی کہ خود قیصر روم مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاری کر رہا ہے تو جناب نبی اکرمؐ نے مدینہ منورہ میں اس کا انتظار کرنے کے بجائے شام کی سرحد کی طرف پیش قدمی کی اور تبوک میں ایک ماہ قیام کر کے رومی فوجوں کا انتظار کرنے کے بعد وہاں سے واپس تشریف لائے۔
یہ تو چند کھلی جنگیں ہیں جو علانیہ لڑی گئیں لیکن ان سے ہٹ کر ایسی متعدد کارروائیاں بھی سیرت النبی کے ریکارڈ میں ملتی ہیں جنہیں چھاپہ مار کارروائیوں (Ambush) سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
مدینہ منورہ کے ایک سازشی یہودی سردار کعب بن اشرف کو جناب نبی اکرمؐ کے ایما پر حضرت محمد بن مسلمہؓ اور ان کے رفقا نے شب خون مار کر قتل کیا۔
خیبر کے نواح کے ایک اور سازشی یہودی سردار ابو رافع کو جناب نبی اکرمؐ کے حکم پر حضرت عبد اللہ بن عتیکؓ نے اسی قسم کی چھاپہ مار کارروائی کے ذریعے سے قتل کیا۔
جناب نبی اکرمؐ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں یمن کے اسلامی صوبہ پرایک مدعی نبوت اسود عنسی نے قبضہ کر کے آنحضرتؐ کے مقرر کردہ گورنر کو شہید کر دیا اور اسلامی ریاست کے عمال کو یمن چھوڑنے پر مجبور کر دیا تو آپؐ کے ایما پر حضرت فیروز دیلمیؓ اور ان کے رفقا نے چھاپہ مار کارروائی کر کے اسود عنسی کو رات کی تاریکی میں قتل کیا اور یمن پر اسلامی اقتدار کا پرچم دوبارہ لہرا دیا۔
صلح حدیبیہ میں قریش مکہ کی بعض ناجائز اور یک طرفہ شرائط کے خلاف دباؤ ڈالنے کے لیے حضرت ابوبصیرؓ اور حضرت ابوجندلؓ نے سمندر کے کنارے ایک باقاعدہ چھاپہ مار کیمپ قائم کیا اور قریش کا شام کی طرف تجارت کا راستہ غیر محفوظ بنا دیا جس سے مجبور ہو کر قریش کو صلح حدیبیہ کے معاہدے میں شامل اپنی یک طرفہ شرائط واپس لینا پڑیں اور ابوبصیرؓ کی چھاپہ مار کارروائیوں سے تنگ آکر قریش کو حضورؐ سے دوبارہ گفتگو کرنا پڑی۔
جناب نبی اکرمؐ نے میدان جنگ میں دشمن کے مقابلے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے محاذ پر بھی کفار کے خلاف صف آرائی کی چنانچہ غزوۂ احزاب کے بعد حضورؐ نے مدینہ منورہ کے ایک اجتماع میں باقاعدہ طور پر اس کا اعلان کیا کہ اب قریش مکہ کو مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کی جرات نہیں ہوگی لیکن اب وہ زبان کی جنگ لڑیں گے اور مسلمانوں کے خلاف پورے عرب میں پراپیگنڈے اور منافرت انگیزی کا بازار گرم کریں گے۔ آپؐ نے اس موقع پر شعر وخطابت سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرامؓ کو میدان میں آنے کی ترغیب دی چنانچہ حضرت حسان بن ثابتؓ‘ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت کعب بن مالکؓ نے کھلے بندوں اعلان کر کے یہ محاذ سنبھالا اور شعر وشاعری کے محاذ پر کفار کے حملوں کا پوری جرات کے ساتھ مقابلہ کیا۔
زیادہ تفصیلات کا موقع نہیں ہے لیکن ان گزارشات سے اتنی بات ضرور سامنے آ گئی ہوگی کہ جناب رسول اللہؐ نے اسلام کی سربلندی اور امت مسلمہ کے تحفظ واستحکام کے لیے موقع ومحل کی مناسبت سے جنگ کی ہرممکنہ صورت اختیار کی اور محاذ آرائی کے جس اسلوب نے بھی آنحضرتؐ کے سامنے اپناچیلنج رکھا، اسے جواب میں مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
آج کے حالات میں جہاد کے حوالے سے دو سوال عام طو رپر کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان مجاہدین کی چھاپہ مار کارروائیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیاکسی علاقے میں جہاد کے لیے ایک اسلامی حکومت کا وجود اور اس کی اجازت ضروری نہیں ہے؟ اس کے جواب میں عرض کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں حضرت ابوبصیرؓ کا کیمپ اور حضرت فیروز دیلمیؓ کی چھاپہ مار کارروائی میں ہمارے سامنے واضح مثال کے طورپر موجود ہے۔ حضرت ابوبصیرؓ نے اپنا کیمپ حضورؐ کی اجازت سے قائم نہیں کیا تھا لیکن جب یہ کیمپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا تو آپؐ نے نہ صرف اس کے نتائج کو قبول کیا بلکہ قریش کی طرف سے یک طرفہ شرائط سے دستبرداری کے بعد اس کیمپ کے مجاہدین کو باعزت طور پر واپس بلا لیا۔ اسی طرح یمن پر اسود عنسی کا غیر اسلامی اقتدار قائم ہونے کے بعد جناب نبی اکرمؐ نے مدینہ منورہ سے فوج بھیج کر لشکر کشی نہیں کی بلکہ یمن کے اندر مسلمانوں کو بغاوت کرنے کا حکم دیا اور اسی بغاوت کی عملی شکل وہ چھاپہ مار کارروائی تھی جس کے نتیجے میں اسود عنسی قتل ہوا۔
دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر جہاد شرعی فریضہ کی حیثیت رکھتا ہے تو جو مسلمان غیر مسلم اکثریت کے ملکوں میں اقلیت (Minority) کے طورپر رہتے ہیں، ان کی ذمہ داری کیا ہے اور کیا ان کے لیے جہاد میں شمولیت ضروری نہیں ہے؟ اس کے جواب میں دو واقعات کاحوالہ دینا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور ان کے والد محترم جناب رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کی خدمت میں جہاد میں شمولیت کے لیے حاضر ہو رہے تھے کہ راستے میں کفار کے ایک گروہ نے گرفتار کر لیا اور اس شرط پر انہوں نے ہمیں رہا کیا ہے کہ ہم ان کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر حصہ نہیں لیں گے۔ اس پر آنحضرتؐ نے یہ فرما کر انہیں بدر کے معرکے میں شریک ہونے سے روک دیا کہ اگر تم نے اس بات کا وعدہ کر لیا ہے تو اس وعدہ کی پاسداری تم پر لازم ہے۔ چنانچہ حضرت حذیفہؓ اور ان کے والد محترم موجود ہوتے ہوئے بھی بدر کے معرکے میں مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے سکے تھے۔ اسی طرح حضرت سلمان فارسیؓ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا جب رسول اکرمؐ قبا میں قیام فرما تھے اور ابھی مدینہ منورہ نہیں پہنچے تھے لیکن حضرت سلمان فارسیؓ کا ذکر نہ بدر کے مجاہدین میں ملتا ہے اور نہ وہ احد ہی میں شریک ہو سکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس وقت آزاد نہیں تھے بلکہ ایک یہودی کے غلام تھے چنانچہ غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کی شمولیت جس پہلے غزوے میں ہوئی، وہ احزاب کا معرکہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے جہاد کے حوالے سے مسلمانوں کے معروضی حالات اور ان کی مجبوریوں کا لحاظ رکھا ہے اس لیے جو مسلمان غیرمسلم اکثریت کے ملکوں میں رہتے ہیں اور ان کے ان ریاستوں کے ساتھ وفاداری کے معاہدات موجود ہیں، ان کے لیے ان معاہدات کی پاسداری لازمی ہے۔ البتہ اپنے ملکوں کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد اور ہمدردی و خیر خواہی کے لیے وہ جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، وہ ان کی دینی ذمہ داری ہے اور اس میں انہیں کسی درجے میں بھی کوتاہی روا نہیں رکھنی چاہیے۔
گزشتہ سال افغانستان پر امریکی حملے کے موقع پر میں برطانیہ میں تھا۔ مجھ سے وہاں کے بہت سے مسلمانوں نے دریافت کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کو یہودیوں کی پیروی کرنا چاہیے اور ان سے کام کا طریقہ سیکھنا چاہیے کیونکہ یہودی ان ممالک میں رہتے ہوئے جو کچھ یہودیت کے عالمی غلبہ اور اسرائیل کے تحفظ ودفاع کے لیے کر رہے ہیں، اسلام کے غلبہ اور مظلوم مسلمانوں کے دفاع کے لیے وہ سب کچھ کرنا مسلمانوں کا بھی حق ہے۔ مگر یہ کام طریقہ اور ترتیب کے ساتھ ہونا چاہیے اور جن ملکوں میں مسلمان رہ رہے ہیں، ان کے ساتھ اپنے معاہدات اور کمٹمنٹ کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا چاہیے۔
آج دنیا کی عمومی صورت حال پھر اس سطح پر آ گئی ہے کہ خواہشات اور محدود عقل پرستی نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور آسمانی تعلیمات کا نام لینے کو جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ آج کی اجتماعی عقل نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سے انکار کر کے حاکمیت مطلقہ کا منصب خود سنبھال لیا ہے اور وحی الٰہی سے راہ نمائی حاصل کرنے کے بجائے اس کے نشانات واثرات کو ختم کرنے کی ہر سطح پر کوشش ہو رہی ہے۔ اس فضا میں ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ کا پرچم پھر سے بلند کرنا اگرچہ مشکل بلکہ مشکل تر دکھائی دیتا ہے لیکن جناب نبی اکرمؐ کی سنت وسیرت کا تقاضا یہی ہے کہ نسل انسانی کو خواہشات کی غلامی اور عقل محض کی پیروی کے فریب سے نکالا جائے اور اسے آسمانی تعلیمات کی ضرورت واہمیت کا احساس دلاتے ہوئے وحی الٰہی کے ہدایات کے دائرے میں لانے کی کوشش کی جائے۔
اس کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان جس مظلومیت اور کسمپرسی کے عالم میں ظالم اور متسلط قوتوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں اور انہیں جس بے رحمی اور سنگ دلی کے ساتھ ان کے مذہبی تشخص کے ساتھ ساتھ قومی آزادی اور علاقائی خود مختاری (Territorial independence) سے محروم کیا جا رہا ہے، اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا اور ان مظلوم مسلمانوں کو ظلم وجبر کے ماحول سے نجات دلانے کے لیے جو کچھ ممکن ہو، کر گزرنا یہ بھی حضورؐ کی تعلیمات وارشادات کا ایک اہم حصہ ہے جس سے صرف نظر کر کے ہم آپؐ کی اتباع اور پیروی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
ان دو عظیم تر ملی مقاصد کے لیے جدوجہد کے مختلف شعبے ہیں۔ فکر وفلسفہ کا میدان ہے، میڈیا اور انفرمیشن ٹیکنالوجی کی جولان گاہ ہے، تہذیب وثقافت کا محاذ ہے، تعلیم وتربیت کا دائرہ ہے، لابنگ اور سفارت کاری کا شعبہ ہے ،اور عسکری صلاحیت کے ساتھ ہتھیاروں کی معرکہ آرائی ہے۔ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے شعبے اور اعلاء کلمۃ اللہ کے ناگزیر تقاضے ہیں۔
اس لیے آج کے دور میں’ ’سنت نبوی کی روشنی میں جہاد کا مفہوم‘‘ یہ ہے کہ:
نسل انسانی کو خواہشات کی غلامی اور عقل محض کی پیروی سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور آسمانی تعلیمات کی عمل داری کی طرف لانے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی جائے۔
اسلام کی دعوت اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو نسل انسانی کے ہر فرد تک پہنچانے اور اس کی ذہنی سطح کے مطابق اسے دعوت اسلام کا مقصد وافادیت سمجھانے کا اہتمام کیاجائے۔
ملت اسلامیہ کو فکری وحدت، سیاسی مرکزیت، معاشی خود کفالت، ٹیکنالوجی کی مہارت، اور عسکری قوت وصلاحیت کی فراہمی کے لیے بھرپور وسائل اور توانائیاں بروئے کار لائی جائیں۔
مسلمان کو صحیح معنوں میں مسلمان بنانے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کے اخلاق وکردار کی تعمیر کے لیے تگ ودو کی جائے نیز دینی تعلیم وتربیت کے نظام کو ہر سطح پر مربوط ومنظم کیا جائے۔
مظلوم مسلمانوں کو ظلم و جبر سے نجات دلانے اور ان کے دینی تشخص اور علاقائی خود مختاری کی بحالی کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔
مسلم ممالک میں قرآن وسنت کی عملداری اور شرعی نظام کے نفاذ کی راہ ہموار کر کے تمام مسلم ملکوں کو عالمی سطح پر کنفیڈریشن کی صورت میں خلافت اسلامیہ قائم کرنے پر آمادہ کیاجائے۔
دینی جذبہ وغیرت کے تحت ظالموں کے خلاف اور مظلوموں کے حق میں ہتھیار اٹھانے والے مجاہدین کو عالمی استعمار کے ہاتھوں ذبح کرانے اور ان کے قتل عام پر خوش ہونے کے بجائے ان کو بچانے کی کوشش کی جائے اور اس عظیم قوت کو ضائع ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے انہیں ملت اسلامیہ کے لیے حقیقی معنوں میں ایک کارآمد قوت بنانے کی راہ نکالی جائے۔
اسلامی تعلیمات‘ قرآن وسنت کے قوانین اور جہاد کے بارے میں عالمی استعمار اور مغربی تہذیب کے علمبرداروں کے یک طرفہ اور معاندانہ پروپیگنڈے سے متاثر ومرعوب ہونے کے بجائے اس کو مسترد کیا جائے اور دلیل ومنطق کے ساتھ اسلامی احکام اور جہاد کی ضرورت وافادیت سے دنیا کو روشناس کرایا جائے۔
یہ کام دراصل مسلم حکومتوں کے کرنے کے ہیں اور انہیں او آئی سی کے عملی ایجنڈے کا حصہ ہونا چاہیے لیکن اگر دینی مراکز اور اسلامی تحریکات بھی باہمی ربط ومشاورت کے ساتھ ان مقاصد کے لیے مشترکہ پیش رفت کا اہتمام کر سکیں تو حالات کوخاصا بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
جون ۲۰۰۲ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter