Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

13 - 50
سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے یہ انکشاف کر کے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ وہ جب قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے کے ترمیمی بل کی حمایت کے لیے پارلیمنٹ کے ارکان سے رابطے کر رہے تھے تو ایک سینیٹر نے ان سے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’حضورؐ تو خود ڈکٹیٹر تھے‘‘ (نعوذ باللہ)۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر جناب سعید احمد منہاس نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سینیٹر کا نام بتائیں عوام خود اسے سنگسار کر دیں گے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل چودھری احمد مختار نے وزیراعظم کے اس انکشاف کو ایک نئے انتشار کا پیش خیمہ قرار دیا ہے، اور پاکستان عوامی اتحاد کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے چیف الیکشن کمشنر سے کہا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف ایک گستاخ رسولؐ کا جرم چھپانے اور اس کا نام ظاہر نہ کرنے کے جرم میں کاروائی کریں۔
یہ مسئلہ فی الواقع سنگین ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے اعلیٰ قانون ساز ادارے کے ایک رکن کی زبان پر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں یہ گمراہ کن اور گستاخانہ الفاظ آخر کس طرح آگئے؟ اس معاملہ کے ضروری پہلوؤں کا جائزہ لینا اور انصاف و دینی حمیت کے تقاضے کو پورا کرنا متعلقہ شخصیات اور اداروں کی ذمہ داری ہے۔
مگر ہم اس مسئلے کے بارے میں ایک اور پہلو سے کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ کے بارے میں مذکورہ سینیٹر کا یہ جملہ اس کا اپنا نہیں بلکہ ایک درآمدی فقرہ ہے جو مغرب کے نظریہ ساز کارخانوں میں ڈھلا ہے۔ اور یہ نو آبادیاتی نظام تعلیم و تربیت میں نشوونما پانے والے ہر ایسے شخص کے ذہن کے کسی نہ کسی کونے میں چپکا ہوا ہے جسے اسلامی تعلیمات، خلافت راشدہ اور اسلامی تاریخ کے بارے میں ضروری معلومات میسر نہیں ہیں۔ اس سینیٹر نے یہ جسارت کی ہے کہ وہ اس جملے کو ذہن کے فریزر سے نکال کر نوک زبان پر لے آیا ہے۔ ورنہ بہت سے ذہنوں کے ’’اسٹور روم‘‘ اسلام اور جناب نبی اکرمؐ کے بارے میں اس قسم کے متعدد ریمارکس اپنے دامن کی تاریکیوں میں سمیٹے ہوئے ہیں اور معاشرتی دباؤ کے باعث ان کے اظہار کی ہمت نہیں پا رہے۔ ہمارے نزدیک اس کا بنیادی سبب دو امر ہیں۔
ایک ہمارے قومی نظام تعلیم کی بے مقصدیت ہے کہ اس نے قیام پاکستان کے بعد نصف صدی کے طویل عرصہ میں ابھی تک یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ مغرب کے سیاسی فلسفے اور نظام کے مقابلہ میں اسلام کو ایک سیاسی نظام اور فلسفے کے طور پر نئی نسل کے سامنے پیش کرے۔ اور ان شکوک و شبہات کا علمی طور پر ازالہ کرے جو مغرب کے تعلیمی نظام اور میڈیا سسٹم نے اسلام اور جناب نبی اکرمؐ کے بارے میں ہر طرف پھیلا رکھے ہیں جن کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب کا یکطرفہ پراپیگنڈہ اور نظریاتی یلغار بہت سے ذہنوں میں اپنی کمین گاہیں قائم کرتی جا رہی ہے ۔ جبکہ ہم ان ذہنوں سے یہ کانٹے نکال باہر پھینکنے کی بجائے انہیں وہیں دبا دینے اور دبائے رکھنے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں۔
دوسرا یہ کہ ہمارے علماء کرام، خطباء اور واعظین میں ایسے افراد کا تناسب بہت کم اور بہت ہی کم ہے جو اپنے مواعظ و خطبات میں اسلام کے اجتماعی پہلوؤں اور جناب رسول اللہؐ کی سنت مبارکہ کے اجتماعی دائروں کو گفتگو کا موضوع بناتے ہیں، جس کی وجہ سے قوم کے مختلف طبقات کا ایک بہت بڑا حصہ اسلام کے اجتماعی نظام اور سنت نبویؐ کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، اور قانونی پہلوؤں سے ناواقف ہے۔ لیکن یہی ناواقفیت اور جہالت کبھی کبھی اپنی آخری حدود بھی تجاوز کر کے گستاخی اور جسارت کی شکل میں ظاہر ہونے لگتی ہے تو ہم جذبات اور اشتعال کی ایک اور لہر کا وزن ڈال کر اسے دبائے رکھنے کا عمل دہرا دیتے ہیں۔
اب مغرب کے اسی الزام کو دیکھ لیجئے جو آنحضرتؐ کے بارے میں صدیوں سے دہرایا جا رہا ہے کہ (معاذ اللہ) آپؐ مطلق العنان اور ڈکٹیٹر تھے۔ حالانکہ یہ سراسر جہالت اور رسول اللہؐ کی سیرت طیبہ سے بے خبری ہے اوربا خبر ہونے کی صورت میں محض عناد اور ہٹ دھرمی ہے۔ کیونکہ سیرت نبویؐ شاہد ہے اور تاریخ کے ریکارڈ پر یہ گواہی موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو دونوں طرف کا لحاظ رکھنے کے پابند تھے۔ انہیں ایک طرف یہ حکم تھا کہ وہ مسلمانوں کو اجتماعی معاملات میں شریک مشورہ کریں وشاورھم فی الامر (سورۃ الشوریٰ)۔ اور دوسری طرف وہ اس امر کے پابند تھے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام میں اپنی مرضی سے کوئی رد و بدل نہیں کر سکتے اور وحی الٰہی کو ہر صورت میں پورا کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ جناب رسول اللہؐ نے ان دونوں ذمہ داریوں کو اس شان سے نبھایا کہ تاریخ انسانی میں اس کی دوسری مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ سیرت طیبہ اس قسم کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے، صرف دو تین واقعات اس موقع پر پیش کیے جا رہے ہیں۔
غزوۂ احد کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ساتھ اس مسئلہ پر مشورہ کر رہے تھے کہ جنگ مدینہ منورہ میں رہ کر اور محصور ہو کر لڑنی چاہیے یا باہر نکل کر کھلے میدان میں کفار کا سامنا کیا جائے۔ خود آپؐ کی رائے محصور ہو کر لڑنے کی تھی مگر مشورہ کی مجلس میں عمومی رجحان باہر جا کر لڑنے کا تھا۔ اس لیے نبی اکرمؐ نے خود اپنی رائے کے خلاف باہر جا کر لڑنے کا فیصلہ کیا اور یہ لڑائی احد پہاڑ کے دامن میں کھلے میدان میں ہوئی۔
ایک مرتبہ جناب نبی اکرمؐ نے اپنے ایک گھریلو معاملہ کے باعث قسم کھالی کہ وہ شہد استعمال نہیں کریں گے۔ یہ ایک ذاتی نوعیت کا معاملہ تھا لیکن وحی الٰہی نے حضورؐ کو اپنا حلف توڑنے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ آپؐ نے قسم توڑی اور اس کا کفارہ ادا کیا اور پھر حسب سابق شہد استعمال کرتے رہے۔
اسی طرح جناب نبی اکرمؐ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور آپؐ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک ٹہنی تھی جو آپؐ نے مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک صحابیؓ کی ننگی کمر پر مار دی۔ کمر ننگی تھی اور کھجور کی ٹہنی گھڑی ہوئی نہیں تھی اس لیے ذرا سخت لگی اور کمر پر خراش بھی آگئی۔ اس صحابیؓ نے بھری مجلس میں بدلے کا مطالبہ کر دیا۔ آنحضرتؐ نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر ٹہنی اس صحابیؓ کے ہاتھ میں دے دی اور اپنی کمر آگے کر کے فرمایا کہ ’’اپنا بدلہ لے لو‘‘۔
اس قسم کے واقعات سیرت نبویؐ میں قدم قدم پر ملتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے نہ صرف قانون کی پابندی اور قانون کے سامنے برابری کی اعلیٰ ترین عملی مثال پیش کی بلکہ لوگوں کے معاملات میں ان سے مشورہ کرنے اور ان کے مشورہ کو اہمیت اور ترجیح دینے کی روایت قائم کی۔ اور یہ سب کچھ اس دور میں ہوا جب خود مغرب قانون، رائے، مشورہ اور حق نامی کسی چیز سے متعارف نہیں تھا۔ اس لیے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر مغرب کے اس ’’بھونڈے الزام‘‘ کو جہالت یا ہٹ دھرمی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم محض مغرب کو کوسنے اور کوستے رہنے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس کریں اور نظام تعلیم، ذرائع ابلاغ اور دینی راہ نمائی کے شعبوں کے ارباب حل و عقد ہماری نئی نسل کو اسلام کے اجتماعی نظام اور سیرت طیبہؐ سے متعارف کرانے کا اہتمام کریں۔ ورنہ مغربی فلسفہ اور کلچر کے لیے ’’بوسٹر‘‘ کا کام کرنے والے حضرات اس قسم کے بے ہودہ ریمارکس نشر کرتے رہیں گے اور ہم ’’ذہنی ارتداد‘‘ کی اس رو کے سامنے جذبات اور اشتعال کے عارضی بند ہر دفعہ نہیں باندھ سکیں گے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۱۷ نومبر ۱۹۹۸ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter