Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

47 - 50
دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱)
6 ستمبر کو ملک بھر میں ’’یوم دفاع پاکستان‘‘ منایا جا رہا ہے۔ 1965ء میں اس روز انڈیا کی فوجوں نے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان پر حملہ کر دیا تھا جس کا مسلح افواج اور پوری قوم نے متحد ہو کر منہ توڑ جواب دیا تھا۔ اُن دنوں قومی جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا۔ میری عمر اس وقت سترہ سال تھی، میں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں درس نظامی کا طالب علم تھا اور اس جنگ میں سول ڈیفنس کے رضاکار کے طور پر عملاً شریک ہونے کے ساتھ ساتھ میں نے گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں روزنامہ وفاق لاہور کے نامہ نگار کی حیثیت سے جنگ کے مختلف واقعات کی رپورٹنگ بھی کی تھی۔ محکمہ شہری دفاع میں علماء کا ایک مستقل ونگ ہوتا تھا جس کے چیف وارڈن اس وقت ملک کے معروف خطیب مولانا عبد الرحمن جامیؒ تھے جبکہ میں ایک رضاکار کے طور پر اس کا حصہ تھا۔ آج یوم دفاع پاکستان کے حوالہ سے کچھ لکھنے کے لیے قلم ہاتھ میں لیا تو ذہن میں خیال آیا کہ ’’دفاع وطن‘‘ کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور اسوۂ حسنہ کی کچھ جھلکیاں قارئین کے سامنے پیش کر دی جائیں تاکہ اس سے برکت کے ساتھ ساتھ راہنمائی بھی ملے اور نسبت بھی تازہ ہو جائے۔
نامور مؤرخ و محدث امام ابن سعدؒ کی تحقیق کے مطابق جناب رسول اللہؐ نے مدینہ منورہ کی دس سالہ زندگی میں ستائیس کے لگ بھگ غزوات میں خود شرکت فرمائی۔ ان میں اقدامی جنگیں بھی تھیں اور دفاعی جنگیں بھی شامل تھیں۔ مثلاً (۱) بدر (۲) خیبر (۳) بنو مصطلق اور (۴) فتح مکہ کی جنگیں اقدامی تھیں کہ آنحضرتؐ ان جنگوں میں دشمن پر خود حملہ آور ہوئے تھے۔ جبکہ (۱) احد (۲) احزاب اور (۳) تبوک کی جنگیں دفاعی تھیں کہ حملہ آور دشمنوں سے مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے حضورؐ میدان جنگ میں آئے تھے اور دشمنوں کو اپنے ارادوں میں ناکامی ہوئی تھی۔
احد کی جنگ میں قریش کا لشکر مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے بڑھ رہا تھا جس پر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کہ شہر کے اندر محصور ہو کر دفاع کرنا چاہیے یا شہر سے باہر نکل کر کھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے؟ خود حضورؐ کی رائے شہر میں محصور ہوجانے کی تھی مگر اکثریت کا رجحان کھلے میدان میں نکل کر مقابلہ کرنے کا تھا۔ چنانچہ آپؐ نے اکثریتی رائے کو قبول کرتے ہوئے شہر سے باہر جنگ کرنے کا فیصلہ کیا مگر زیادہ دور نہیں گئے بلکہ اس وقت کے مدینہ منورہ کی آبادی سے تین میل کے فاصلے پر احد کے میدان میں دشمن سے نبرد آزما ہوئے۔ اس میں ایک سبق یہ بھی ہے کہ ملکی دفاع میں رائے عامہ کو اعتماد میں لینا اور قوم کو مشاورت میں شریک کرنا بھی سنت نبویؐ ہے۔
غزوۂ احزاب میں جناب نبی اکرمؐ نے شہر میں محصور ہو کر قریش اور ان کے اتحادیوں کی مشترکہ فوجوں کا راستہ روکا۔ شہر میں ان کے داخلہ کو روکنے کے لیے آبادی کے اردگرد گہری خندقیں کھدوائیں جس کی وجہ سے دشمن افواج کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود مدینہ میں داخل نہ ہو سکیں اور کم و بیش ایک ماہ کا ناکام محاصرہ کرنے کے بعد نامراد واپس لوٹ گئیں۔
تبوک کا غزوہ بھی رومی افواج کی مدینہ منورہ کی طرف یلغار کی مسلسل خبروں کے باعث منظم کیا گیا تھا۔ حضورؐ مسلمانوں کے بھاری لشکر کے ساتھ روم کے زیر نگیں صوبہ شام کی طرف بڑھے مگر شام کی سرحد پر تبوک سے آگے بڑھنے کی بجائے وہیں رک کر رومی فوجوں کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن جب واضح ہوگیا کہ رومی فوجیں پیش قدمی کا حوصلہ نہیں کر رہیں تو تقریباً ایک ماہ تک وہاں انتظار کرنے کے بعد آپؐ نے مدینہ منورہ کی طرف واپسی کا سفر کیا۔
مدینہ منورہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد ایک باقاعدہ ریاست کی شکل اختیار کر چکا تھا اور اس کے حاکم اعلیٰ خود جناب رسول اللہؐ تھے۔ اس ریاست کو ہر وقت کسی نہ کسی دشمن کے حملہ کا خطرہ درپیش رہتا تھا اور اس کے مقابلہ کے لیے حضورؐ خود بھی تیار رہتے تھے اور ساتھیوں کو بھی چوکنا رہنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ جناب نبی اکرمؐ کی دفاعی حکمت عملی کی ایک جھلک یہ ہے کہ انصار مدینہ کا قبیلہ ’’بنو سلمہ‘‘ مسجد نبویؐ کے راستے میں ایک فاصلے پر آباد تھا۔ ایک موقع پر انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے مکانات فروخت کر کے مسجد نبویؐ کے قریب جگہ خرید کر مکان بنا لیں تاکہ مسجد کے قریب ہو جائیں اور آپؐ کی صحبت سے فیض یاب ہو سکیں۔ لیکن آنحضرتؐ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بنو سلمہ اگر اپنے مکانات بیچ کر مسجد نبویؐ کے قریب منتقل ہو جاتے تو وہ راستہ اور علاقہ مسلمانوں کے وجود سے خالی ہو جاتا جو کہ دفاعی نقطۂ نظر سے مناسب نہیں تھا، اس لیے حضورؐ نے دفاعی حکمت عملی کے تحت بنو سلمہ کو وہ علاقہ خالی کرنے سے منع فرمایا۔
دفاعی سرگرمیوں میں صحابہ کرامؓ کو ہوشیا رکھنے کے ساتھ ساتھ آپؐ خود بھی عملی طور پر ان میں پیش پیش رہتے تھے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ایک مرحلہ میں مدینہ منورہ پر بیرونی حملہ آوروں کی در اندازی کا خطرہ بڑھ گیا تھا اور لوگوں کو خدشہ رہتا تھا کہ دشمن کسی وقت بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اس دوران ایک رات نصف شب کے لگ بھگ ایک طرف سے شور کی آواز آئی تو بہت سے لوگ بیدار ہو کر صورتحال معلوم کرنے کے لیے مختلف اطراف میں پھیل گئے۔ مگر یہ لوگ ابھی مدینہ کی آبادی سے باہر نکل رہے تھے کہ سامنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے دکھائی دیے جو گھوڑے کی ننگی پشت پر سوار مدینہ میں یہ اعلان کرتے ہوئے داخل ہو رہے تھے کہ گبھرانے کی ضرورت نہیں ہے، میں چاروں طرف گھوم پھر کر دیکھ آیا ہوں اس وقت خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ دشمن کے حملہ کے ہر وقت خطرہ کے ماحول میں آدھی رات کو اکیلے ہی گھوڑے پر سوار ہو کر آبادی کے چاروں طرف چکر لگانا اور واپس آکر ساتھیوں کو تسلی دینا آنحضرتؐ ہی کا حوصلہ تھا جو دفاع وطن کے لیے آپؐ کے جذبات اور طرز عمل کی صرف ایک جھلک ہے۔
آج وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دفاعی حوالہ سے جن خطرات کا سامنا ہے ان کے سد باب کے لیے جناب نبی اکرمؐ کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ سے مسلسل راہ نمائی کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۶ ستمبر ۲۰۱۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter