Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

27 - 50
صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ
( دارالہدٰی، سپرنگ فیلڈ، ورجینیا، امریکہ میں ستمبر 2007ء کے دوران سیرت النبیؐ پر سلسلہ محاضرات۔)
جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگیں بھی کی ہیں اور صلحات بھی۔ حضورؐ نے جو جنگیں کیں ان کا مقصد کیا تھا اور وہ کن اصولوں کے تحت لڑی گئیں؟ اور آپؐ نے جو صلحیں کیں وہ کن مصلحتوں کے تحت کی گئیں اور حضورؐ نے ان صلحوں کو کیسے نبھایا؟ اس حوالے سے مختصراً چند باتیں عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ جناب نبی کریمؐ نے جو دین پیش کیا وہ صرف اخلاقیات اور عبادات پر ہی مشتمل نہیں بلکہ یہ دین پوری زندگی کا انسانی ضابطہ حیات ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ یہ دین زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہے۔ بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب محمد رسول اللہؐ تک جتنے پیغمبر بھی آئے سب کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط رہی ہیں۔
یہ انسانوں کی بدقسمتی ہے کہ آج انسانی سوسائٹی کے ایک بڑے حصے نے آسمانی تعلیمات سے قطع تعلقی اختیار کرلی ہے، اس کے اسباب کچھ بھی ہوں ان پر بحث ہو سکتی ہے لیکن یہ بدبختی کی بات ہے کہ انسانی سوسائٹی کا ایک بڑا حصہ اپنی عملی زندگی میں آسمانی تعلیمات سے لا تعلق ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ ایک مستقل موضوعِ بحث اور پریشان کن مسئلہ ہے کہ آج انسانوں کا ایک بڑا طبقہ عقیدتاً یہ بات کہتا ہے کہ آسمانی تعلیمات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور دنیا بھر میں مسلمان جن اعتراضات اور تنقیدات کا نشانہ ہیں ان میں ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ مسلمان آسمانی تعلیمات سے لا تعلقی کے موقف کو قبول نہیں کر رہا۔ یہ بات کہ عملی زندگیوں میں آسمانی تعلیمات سے لا تعلقی اختیار کر لی جائے مسلمان کسی طور قبول نہیں کر پا رہے جبکہ دنیا کی باقی قومیں مجموعی طور پر یہ بات ہضم کر چکی ہیں۔ یہ مسئلہ الگ ہے کہ ان قوموں کے پاس آسمانی تعلیمات اصلی ہیں یا تحریف شدہ ہیں، ان کے پاس آسمانی تعلیمات جس شکل میں بھی ہیں وہ انہیں تاریخی یادگار ، تبرک اور آثار قدیمہ سے زیادہ کوئی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آج کی موجودہ بائبل دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہے لیکن اس میں جو کچھ لکھا ہے اس پر کوئی بھی عمل کے لیے تیار نہیں ہے۔ باوجود اس کے کہ قرآن کریم سے پہلے کی آسمانی کتابوں کے صرف تراجم ہی موجود ہیں اور وہ بھی تحریف شدہ ہیں لیکن بنیادی تعلیمات ان میں آج بھی موجود ہیں۔ میں بائبل بھی پڑھتا ہوں اور تالمود بھی جو کہ اردو میں آگئی ہے۔ تحریفات کے باوجود آج بھی بائبل اور تالمود کی بنیادی تعلیمات قرآن کی بنیادی تعلیمات سے ملتی جلتی ہیں۔ چنانچہ دنیا کی باقی قوموں اور مسلمانوں کے درمیان ایک بڑا فرق یہ ہے کہ دنیا کی قومیں اپنی آسمانی تعلیمات سے دستبردار ہوگئی ہیں کہ گویا آسمانی تعلیمات ان کے نزدیک اب میوزیم کی چیزیں ہیں۔ جبکہ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم آسمانی تعلیمات سے راہنمائی لیتے ہیں اور اپنی عملی زندگیوں میں قرآن و سنت کے پابند ہیں۔ یہ ایک مستقل تنازعہ اور جھگڑا ہے۔
ایک انسان کی بحیثیت انسان کسی کے ساتھ دوستی ہوگی اور کسی کے ساتھ دشمنی ہوگی، یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی کو اچھا سمجھتا ہے اور کسی کو برا سمجھتا ہے۔ چونکہ سوسائٹی انسانوں سے بنتی ہے اس لیے یہی نیچر سوسائٹی کی بھی ہے۔ جب مختلف قوموں کے فلسفہ و فکر سامنے آتے ہیں تو ان میں ٹکراؤ بھی پیدا ہوتا ہے، اس طرح اجتماعیات میں جنگوں کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں اور صلح کے مواقع بھی۔ قوموں کی آپس میں جنگیں بھی ہوتی ہیں اور مصالحتیں بھی، دشمنیاں بھی ہوتی ہیں اور دوستیاں بھی۔ یہ فرد کی فطرت بھی ہے اور سوسائٹی کی فطرت بھی ہے۔ اسلام نے صلح اور جنگ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بڑی تفصیل سے اصول و ضوابط دیے ہیں، قرآن کریم میں اور سنت رسول میں اس کی تفصیلات ملتی ہیں اور اس کا ایک پورا نظام سامنے آتا ہے کہ کس سے جنگ کرنی ہے کب کرنی ہے کیوں کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے۔ یہی معاملہ صلح کے حوالے سے بھی ہے۔
اسلام میں جنگ کا تصور
آج کے دور میں عام طور پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے دنیا میں پھیلا ہے، طاقت کے زور پر لوگوں سے تسلیم کرایا گیا ہے اور یہ کہ اسلام میں تبلیغ کا ذریعہ جنگ ہے۔ یہ آج کی دنیا کا مسلمانوں پر اعتراض ہے کہ اسلام میں ہتھیار اٹھانا اس لیے ہے تاکہ اس سے لوگوں کو مسلمان کیا جائے- یہ اعتراض بالکل خلافِ واقعہ ہے اس لیے کہ امت مسلمہ کے مجاز حکام نے کبھی کسی قوم کو مسلمان کرنے کے لیے طاقت استعمال نہیں کی۔ خلافت راشدہ کا دور ہو یا خلافت بنو امیہ کا، خلافت بنو عباس کا زمانہ ہو یا خلافت بنو عثمان کا، کبھی کسی اسلامی حکومت نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان ہو جاؤ ورنہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ انفرادی طور پر شاید ایسے کچھ واقعات مل جائیں لیکن بحیثیت امت اور بحیثیت خلافت ایسا کبھی نہیں ہوا۔ وہ مجاز اتھارٹیز جو تیرہ سو سال سے چلی آرہی تھیں جن میں سخت حکومتیں بھی تھیں اور ڈھیلی بھی، خلافت کا نظام مسلمانوں میں جیسا کیسا بھی رہا لیکن ہر دور میں یہ گارنٹی دی گئی کہ کسی قوم پر اسلام قبول کرنے کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا۔ اور اس پر مثالیں موجود ہیں کہ کچھ لوگوں نے اپنے طور پر جبر کرنا چاہا لیکن خلفاء نے اور مجاز حکام نے انہیں روک دیا کہ بھئی ایسا نہیں ہوگا۔
بنو تغلب عیسائیوں کا عرب قبیلہ تھا اور اسلامی حکومت کے زیر اثر تھا، حضرت عمرؓ کے زمانے میں ان کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا۔ بنو امیہ کے دور میں وہاں کے مقامی مسلمان حاکم نے قبیلے والوں سے کہا کہ مسلمان ہو جاؤ ورنہ میں تمہارے خلاف جنگ کروں گا۔ اس پر قبیلے والوں نے خلیفۂ وقت سے شکایت کی تو ان کی شکایت پر اس مقامی حاکم کو معزول کر دیا گیا کہ تمہارا اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں ہے، یہ ان کی مرضی پر ہے کہ وہ مسلمان ہوتے ہیں یا نہیں۔ چنانچہ یہ بات تو قطعی طور پر خلاف واقعہ ہے کہ مسلمانوں نے تلوار کے زور پر کسی کو مسلمان کیا ہو۔ البتہ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ مسلمانوں کو تلوار کے زور پر عیسائی بنایا گیا ہے، جب اسپین پر عیسائیوں کا دوبارہ قبضہ ہو اتو انہوں نے اجتماعی طور پر مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنایا لیکن مسلمانوں نے کسی قوم کو جبراً مسلمان کیا ہو اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، میں مجاز حکام کی بات کر رہا ہوں انفرادی اور شخصی واقعات کا ذکر نہیں کر رہا۔
جہاد کس لیے؟
جہاد کیا ہے اور اسلام میں جنگ کس لیے ہے؟ جہاد آج کی دنیا کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے۔ میں مختصراً عرض کرتا ہوں کہ جہاد کا اصولی مفہوم وہی ہے جو آج کی برتر قوتیں اپنے فکر و ثقافت کی بالادستی کے لیے کر رہی ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ سی بات ہے لیکن ذرا غور کریں کہ آج کی برتر قوتیں کیا کر رہی ہیں؟ وہ یہ کہتی ہیں کہ ہمارا ایک فلسفہ و تہذیب ہے جسے ہم ہر طرح کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے دنیا تک پہنچائیں گے اور جو بھی ہمارے فلسفہ و تہذیب کی اشاعت میں رکاوٹ بنے گا ہم اس کے ساتھ جنگ کریں گے۔ یہ وہی بات ہے جو ایک دور میں مسلمانوں نے کہی تھی۔ جب پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی تو اس کے بعد یہ کہا گیا کہ اسلام وہ فلسفۂ حیات ہے جو تمام انسانیت کے لیے یکساں مفید ہے اور یہ کہ مسلمان اس تہذیب کو لے کر دنیا کے کونے کونے میں جائیں گے۔ البتہ ہر کسی کی مرضی ہوگی کہ وہ اسلام قبول کرے یا نہ کرے لیکن جو بھی تبلیغ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے گا اس کے ساتھ جنگ کی جائے گی۔ چنانچہ جہاد کے فلسفے کو آج کی قوتیں تسلیم کیے ہوئے ہیں اور اس پر عمل کر رہی ہیں۔
یہ بات الگ ہے کہ کونسا فلسفہ اور تہذیب ٹھیک ہے اور کونسی غلط۔ لیکن جو قوت اپنے فلسفے کو، اپنی ثقافت کو ، اپنی تہذیب کو صحیح سمجھتی ہے وہ طاقت کے ساتھ پوری دنیا میں اسے پھیلانے کی کوشش کرتی ہے۔ آج جس فلسفے کو دنیا کے لیے بہتر سمجھاجارہا ہے یہ ہیومن رائٹس کا فلسفہ ہے لبرٹی کا فلسفہ ہےعورتوں کے حقوق کا فلسفہ ہے اور مرد و عورت کے مابین مساوات کا فلسفہ ہے۔ آج مغربی تہذیب کو بڑے خوش نما عنوانات کے ساتھ پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے طاقت کا استعمال ہو رہا ہے اور جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ اس فلسفے کی راہ میں لوگ رکاوٹ بن رہے ہیں تو وہاں انہیں طاقت کے ساتھ دبایا اور ختم کیا جا رہا ہے۔یہ فلسفہ کہ نسل انسانی کے لیے جو تہذیب بہتر ہے اس سے نسل انسانی کو روشناس کرانے کے لیے کسی رکاوٹ کو برداشت نہ کیا جائے، اسی کا نام جہاد ہے۔ یعنی اس بات میں زبردستی نہیں ہے کہ کوئی اس تہذیب کو قبول کرتا ہے یا نہیں لیکن یہ تہذیب دوسروں تک پہنچانے میں کوئی رکاوٹ نہ بنے۔ یہ الگ بحث ہے کہ فلسفہ ان کا ٹھیک ہے یا ہمارا، نسل انسانی کے لیے ان کی تہذیب بہتر ہے یا ہماری۔
اشاعتِ اسلام کے لیے جبر
اشاعت اسلام کے پہلے مرحلے کے متعلق آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اسلام کی دعوت دو اگر مان جائیں تو ٹھیک ورنہ ان سے کہو کہ ہمارے راستے میں رکاوٹ مت بنو۔ یعنی مسلمان نہیں بنتے نہ بنو لیکن ہمیں دوسروں تک اسلام کی دعوت پہنچانے دو۔ اگر تم بطور کافر ہماری رعیت میں رہنا چاہتے ہو تو ہم تمہاری ذمہ داری اٹھائیں گے اور تمہاری حفاظت کریں گے لیکن اگر تم اسلام کی دعوت دینے میں رکاوٹ بنو گے تو ہم تم سے لڑیں گے۔ جناب نبی کریمؐ کو جہاں کہیں بھی شبہ ہوا کہ کسی نے دوسروں کو مسلمان بنانے کے لیے زبردستی کی وہاں نبی کریمؐ نے سختی سے منع فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں اس کے متعلق واضح طور پر فرمایا لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ (سورۃ البقرۃ ۲۵۶) کہ دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے بے شک ہدایت یقیناًگمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے۔ کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کافر کو زبردستی مسلمان کرے، لوگوں کو اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ (سورۃ الکہف ۲۹) اور کہہ دو سچی بات تمہارے رب کی طرف سے ہے پھر جو چاہے مان لے اور جو چاہے انکار کر دے۔ اسلام کی بات پہنچانا اور اسلام کی دعوت دینا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، اس دعوت کو قبول کرنا یا نہ کرنا لوگوں کے اختیار میں ہے۔
قرآن کریم نے یہ بھی کہا کہ جو قوتیں تمہاری دعوت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں ان کے ساتھ دوستی، معاملات اور تعلقات رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْھِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (سورۃ الممتحنہ ۸) کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا۔ اللہ تعالیٰ انصاف کا برتاؤ کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں لیکن جو برتر قوت کی مخالفت میں آئے، جھگڑا کرے اور رکاوٹ بنے تو اس کے متعلق دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ لڑائی کی جاتی ہے اور انہیں راستے سے ہٹایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا منشور جو آج کی دنیا کا مروجہ فلسفہ ہے اس میں بھی یہی بات مذکور ہے کہ اگر کوئی ملک یا قوم اس فلسفے اور اس نظام کی راہ میں رکاوٹ بنے گا تو اس کے خلاف اقوام متحدہ کی اجازت کے ساتھ طاقت استعمال کی جا سکے گی۔ اسلام میں طاقت کے استعمال کا تصور موجود ہے لیکن اسلام کی تبلیغ کے لیے نہیں کیونکہ اسلام میں مسلمان بنانے کے لیے طاقت کے استعمال کا حق کسی کو نہیں ہے۔ البتہ جہاں لوگ دعوت اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنیں اور مسلمانوں کو ان کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس کے متعلق حضورؐ نے واضح احکامات جاری کیے کہ دورانِ جنگ کسی بوڑھے کو قتل نہیں کرو گے، کسی بچے کو نہیں مارو گے، مخالف لشکر کے ایسے لوگ جو تمہارے خلاف ہتھیارنہیں اٹھائے ہوئے اور ویسے ہی لشکر کی خدمت کر رہے ہیں انہیں بھی نہیں مارو گے اور جو ہتھیار پھینک کر بھاگ جائے گا اسے نہیں مارو گے۔ سچی بات یہ ہے کہ آج کے مہذب دور میں ان باتوں پر عمل نہیں ہوتا۔ آج کے اس دور میں کوئی یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ جنگ میں غیر متعلقہ آدمی نہیں مارا جائے گا بلکہ آج تو غیر متعلقہ لوگ ہی زیادہ مارے جاتے ہیں۔ لیکن جناب نبی کریمؐ نے اس دور میں اس کی ہدایات دیں اور پھر ان ہدایات کی پابندی بھی کروائی۔ ایک جنگ میں حضورؐ نے ایک عورت کی لاش دیکھی تو آپؐ نے پوچھا کہ اس عورت کو کس نے مارا ہے؟ حضورؐ نے اس کی باقاعدہ بازپرس کی کہ جنگ میں ایک عورت کیسے قتل ہوگئی۔
اشاعتِ اسلام کا سبب
آج یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے طاقت کے ذریعے لوگوں کو مسلمان کیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ مکہ کی تیرہ سالہ زندگی جو حضورؐ نے صبر آزما حالات میں گزاری اس دور میں جو لوگ مسلمان ہوئے انہیں کس طاقت نے مسلمان کیا؟ بڑے بڑے مسلمان تو اسی دور میں ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو کس طاقت نے مسلمان کیا تلوار تو ان کے ہاتھ میں تھی اور وہ حضورؐ کے قتل کے ارادے سے حضورؐ کے پاس آئے تھے جبکہ حضورؐ نہتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابوذر غفاریؓ بنوغفار سے جب مکہ آئے تو یہ جناب رسول اللہؐ کا شعب ابی طالب میں محصورہونے کا دور تھا۔ ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اس زمانے میں ہی بت پرستی سے نفرت تھی میں خدا کو مانتا تھا اور اپنے ذوق سے اس کی عبادت کیا کرتا تھا۔ مجھے اپنے قبیلے میں پتہ چلا کہ مکہ میں کوئی صاحب ہیں جو میرے جیسی باتیں کرتے ہیں، میں نے اپنے بھائی کو بھیجا کہ جا کرپتہ کر کے آؤ۔ بھائی گیا اور جا کر سرسری معلومات لے کر آیا لیکن مجھے اس سے تسلی نہ ہوئی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود جا کر پتہ کرتا ہوں۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ میں مکہ میں جب پہنچا تو وہاں سہما سہما سا ماحول تھا مجھے کسی سے یہ بات پوچھنے کا حوصلہ نہ ہوا کہ محمدؐ کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں تاکہ میں ان سے مل سکوں۔ میں حرم میں آکر بیٹھ گیا۔ شام کو ایک صاحب آئے اور پوچھا کہ مسافر ہو؟ میں نے بتایا کہ ہاں مسافر ہوں۔ کہنے لگے کہ آؤ میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ میں ان کے ساتھ گیا اور کھانا کھا کر واپس آکر پھر حرم میں بیٹھ گیا۔ دوسرے دن وہی صاحب آئے تو میں پھر حرم میں تھا اور زم زم پی رہا تھا۔ ان صاحب نے پوچھا اے مسافر! تمہیں ابھی تک تمہاری منزل نہیں ملی۔ میں نے کہانہیں۔ انہوں نے پھر مجھے ساتھ لے جا کر کھانا کھلایا۔ تیسرے دن پھر یہی ہوا۔
حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ تین دن یہی ہوتا رہا کہ وہ صاحب مجھے کھانا کھلانے کے لیے لے جاتے اور میں کھانا کھا کر واپس آجاتا۔ نہ مجھ میں ان صاحب سے پوچھنے کا حوصلہ ہوا اور نہ ہی وہ صاحب مجھ سے میرا مقصد پوچھ رہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ تیسرے دن میں نے دل سخت کر کے پوچھ ہی لیا کہ بھئی میں یہاں اس مقصد سے آیا ہوں کہ ان صاحب سے ملنا چاہتا ہوں جو توحید کی بات کرتے ہیں اور بتوں کی مخالفت کرتے ہیں، اگر تم میرے ساتھ جھگڑانہ کرو تو میں تم سے یہ بات پوچھ لوں؟ یہ میزبان حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے۔ حضرت علیؓ ہنس پڑے اور فرمایا کہ تم صحیح آدمی سے ملے ہو کسی اور سے یہ بات کہتے تو نہ جانے کیا معاملہ ہوتا۔ رات آرام کرو میں تمہیں صبح ملاقات کے لیے لے جاؤں گا۔ حضورؐ زید بن ارقمؓ کے مکان میں تھے جو انہوں نے ایک خفیہ ٹھکانہ بنایا ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت ابوذر غفاریؓ حضورؐ کی خدمت میں پیش ہوئے اور آپؐ کی دعوت کے متعلق دریافت کیا۔ آپؐ نے انہیں اپنی دعوت کے متعلق بتایا کہ میں توحید کی بات کرتا ہوں اور بت پرستی کی مخالفت کرتا ہوں اور یوں حضرت ابو ذر غفاریؓ مسلمان ہوگئے۔ نبی کریمؐ نے انہیں ہدایت دی کہ سیدھے اپنے قبیلے چلے جاؤ اور یہاں کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا، اپنے قبیلے میں جا کر کام کرو۔ جب تمہیں یہ خبر ملے کہ میں نے مکہ چھوڑ کر کہیں اور اپنا ٹھکانہ بنا لیا ہے تو تم میرے پاس آجانا۔ جبکہ حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے میں تو یہاں اعلان کر کے جاؤں گا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ چنانچہ وہ بیت اللہ کے قریب گئے جہاں سب قریشی اکٹھے تھے وہاں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ میں ابوذر ہوں بنو غفار سے آیا ہوں اور میں نے کلمہ پڑھ لیا ہے اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ۔ اس ماحول میں یہ بم پھٹنے والی بات تھی۔ فرماتے ہیں کہ لوگ آگئے کسی کے ہاتھ میں جوتا ہے کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے کوئی مکہ مار رہا ہے کوئی تھپڑ مار رہا ہے حتیٰ کہ میں زمین پر گر گیا اور لوگ مجھ پر پل پڑے۔ حضرت عباسؓ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے یہ منظر دیکھ رہے تھے انہوں نے آکر مجھے درمیان سے نکالا اور لوگوں کو مارپیٹ سے روکا اور کہا کہ لوگو کیا کر رہے ہو یہ بنو غفار کا آدمی ہے، شام کی طرف تمہارے تجارت کے قافلے جاتے ہیں تو ان کا قبیلہ راستے میں ہے، تم لوگوں نے اسے مار دیا تو تمہاری تجارت کا راستہ بند ہو جائے گا۔ حضرت عباسؓ نے یہ کہہ کر ان کی جان چھڑوائی۔ ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ میں رات وہیں رہا اگلے دن جب چاشت کا وقت آیا اور بہت سے لوگ اکٹھے ہوگئے تو میں نے پھر کھڑے ہو کر اعلان کر دیا اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشہد ان محمدًا عبدہ ورسولہ۔ فرماتے ہیں کہ میری ایک بار پھر پٹائی ہوئی۔
میں جو بات عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ابو ذر غفاریؓ کو کس طاقت نے مسلمان کیا کہ طاقت والے لوگ تو دوسری طرف تھے۔ یہ دین کی ایمان کی اخلاق کی اور کردار کی قوت تھی جس نے اس جماعت کی بنیاد بنائی۔ اسلام کی پہلی جماعت تو ماریں کھا کر بھوک برداشت کر کے طعن و تشنیع کا سامنا کر کے اور ظلم و ستم سہہ کر تیار ہوئی تھی۔ حضرت خباب بن ارتؓ کہتے ہیں کہ میں جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ مہربانی کا معاملہ فرمائیں ہماری حالت تو بہت خراب ہے۔ وہ غلام تھے انہوں نے بتایا کہ میرا مالک کوئلے جلاتا ہے اور مجھے کوئلوں پر سیدھا لٹا کر اوپر میرے سینے پر بیٹھ جاتا ہے۔ چربی پگھلتی ہے خون نکلتا ہے جس سے کوئلے بجھتے ہیں۔ یارسول اللہ کب تک یہ معاملہ رہے گا؟ آپؐ نے فرمایا صبر کرو۔ خبابؓ نے کمر سے چادر اٹھائی اور کہا کہ یا رسول اللہ میری کمر کی حالت دیکھیں۔ پیپ رستی ہے گڑھے پڑے ہوئے ہیں بوٹیاں سامنے نظر آرہی ہیں۔ آپؐ نے پھر فرمایا حوصلہ کرو صبر کرو۔ فرمایا کہ تم سے پہلے ایمان قبول کرنے پر لوگوں پر یہ وقت بھی آیا کہ ایک انسان کو سر پر آری رکھ کر پاؤں تک دو ٹکڑے کر دیا گیا۔ اور ایسا بھی ہوا ہے کہ لوہے کی کنگھیاں بنا کر جسم سے گوشت کی آخری بوٹی تک نوچ لی گئی۔
میں نے یہ عرض کیا کہ جنگ اور جہاد لوگوں کو مسلمان کرنے کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ اسلام کی راہ سے رکاوٹ دور کرنے کے لیے تھا چنانچہ اسی بنا پر اسلامی تاریخ میں جہاد ہوا ہے۔ اسلام کی دعوت تو جناب رسول اللہؐ نے مظلومیت کی حالت میں دی اور ظلم کے اس دور میں جانثاروں کی ایک جماعت تیار کی۔ اور یہ اسلام کی تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں پر جتنے زیادہ ظلم ڈھائے گئے ہیں اسلام کی دعوت اتنی زیادہ دنیا میں پھیلی ہے۔ آج بھی دیکھ لیں کہ جتنا مسلمانوں کی مظلومیت میں اضافہ ہوا ہے اتنا زیادہ اسلام کی تعلیمات سے لوگ روشناس ہوئے ہیں۔ اسلام کی ابتدائی جنگیں تو سراسر دفاعی جنگیں تھیں، اور بعد کی جنگیں بھی بظاہر اقدامی نظر آتی ہیں لیکن وہ دفاعی ہی تھیں کہ جن قوتوں سے مسلمانوں نے خطرہ محسوس کیا اور جن طاقتوں نے مسلمانوں کے خلاف عزائم کا اظہار کیا ان کے خلاف مسلمانوں نے بروقت اقدامات کیے۔ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا انا نبی الملاحم میں جنگوں کا نبی ہوں۔ حضورؐ کے وصال کے وقت بھی آپؐ کے ترکے میں ہتھیار ہی تھے، تلواریں اور زِرّیں تھیں۔ لیکن حضورؐ کی اور بعد میں آنے والوں کی جنگیں لوگوں کو مسلمان کرنے کے لیے نہیں تھیں بلکہ مسلمانوں اور دعوتِ اسلام کو تحفظ دینے کے لیے تھیں۔
اسلام میں صلح کا تصور
نبی کریمؐ نے بوقت ضرورت صلح بھی کی اور صلح کے معاہدوں کی پاسداری بھی کی۔ جب قریش مکہ کے ساتھ صلح ہوئی کہ دس سال جنگ نہیں کریں گے، یہ صلح بظاہر بہت کمزور شرطوں پر تھی، اس معاہدے کے وقت آپؐ اپنی جماعت کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کی غرض سے مکہ کے باہر موجود تھے لیکن کفارِ مکہ نے یہ شرط بھی رکھ دی کہ مسلمان اس سال عمرہ نہیں ادا کر سکیں گے اس کے لیے انہیں اگلے سال کا انتظار کرنا ہوگا۔ ایک شرط انہوں نے یہ بھی رکھی کہ معاہدے کے دس سالوں کے دوران مسلمانوں کا کوئی ساتھی انہیں چھوڑ کر مکہ مکرمہ گیا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا لیکن اگر کفار مکہ کا کوئی ساتھی انہیں چھوڑ کر مسلمانوں کے پاس گیا تو وہ اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا یارسول اللہ کن شرطوں پر صلح کر رہے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا میں نبی ہوں اور اللہ کے حکم سے ایسا کر رہا ہوں اور ایک وقت آئے گا کہ یہی صلح فتح میں تبدیل ہوگی۔ صلح نامہ کا معاہدہ کرنے کے لیے قریش کا نمائندہ سہیل بن عمرو تھا جبکہ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے یہ معاہدہ لکھوایا۔ قریش کی رعونت کا عالم دیکھیں کہ حضورؐ نے جب یہ لکھوایا بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم تو سہیل بن عمرو نے کہا کہ ما الرحمٰن یہ رحمان کیا ہے اسے مٹاؤ۔ ہم جس طرح باسمک اللّٰھم لکھا کرتے ہیں ویسے ہی لکھو۔ اور جب حضرت علیؓ نے معاہدہ لکھا کہ ھذا ما قاضٰی علیہ محمد رسول اللّٰہ و سہیل بن عمرو تو اس پر سہیل بن عمرو نے اعتراض کر دیا کہ اگر معاہدے میں ہم انہیں رسول اللہؐ مان لیں تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے اس لیے محمد رسول اللّٰہ کی جگہ محمد بن عبد اللّٰہ لکھو۔ اس پر وہاں بڑی جذباتی فضا بن گئی، کون مسلمان ہے جو اپنے ہاتھ سے محمد رسول اللّٰہ کا جملہ لکھ کر اسے کاٹے؟ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے کہا امح کاٹو۔ حضرت علیؓ نے کہا یا رسول اللہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ آپؐ نے پھر فرمایا امح یاعلی علی اسے کاٹو۔ حضرت علیؓ نے کہا واللّٰہ لا أمحوہ اللہ کی قسم نہیں کاٹوں گا۔ حتیٰ کہ حضور نے خود وہ جملہ کاٹا۔
اسی طرح جب یہ معاہدہ لکھا جا رہا تھا تو سہیل بن عمرو کا اپنا بیٹا ابو جندلؓ جو مسلمان ہوگیا تھا اسے گھر میں زنجیروں میں باندھ کر رکھا گیا تھا وہ کسی طرح زنجیر توڑ کر آگیا کہ جناب میں آپؐ کا ساتھی ہوں اور آپؐ کے ساتھ جاؤں گا۔ سہیل نے کہا کہ جناب آپ نے معاہدے میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ ہمارا کوئی آدمی آپ کے پاس آئے گا تو آپ اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ ابھی معاہدہ مکمل نہیں ہوا۔ سہیل نے کہا کہ پھر ہمیں یہ معاہدہ منظور نہیں ہے، میرا بیٹا واپس مکہ واپس جائے گا تو یہ معاہدہ ہوگا ورنہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ آپ نے معاہدہ تسلیم کر لیا۔ ابوجندل نے کہا کہ یا رسول اللہ مجھے کن لوگوں کے حوالے کر رہے ہیں کیا آپ میرا حال نہیں دیکھ رہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہم معاہدے کی رو سے پابند ہیں اس لیے تمہیں واپس جانا ہوگا۔ یہ ایسی صورتحال تھی کہ صحابہؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں منظر کو دیکھ نہیں پا رہا تھا اور میں نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا۔ لیکن حضورؐ نے حالات کی ضرورت کے پیش نظر صلح کا یہ معاہدہ کیا اور اسے نبھایا۔ اس معاہدے کے بعد انہی مکہ کے مجبور و بے بس مسلمانوں میں سے ابو بصیرؓ مدینہ منورہ گئے تو قریش کا نمائندہ بھی وہاں پہنچ گیا کہ جناب ہمارا ساتھی آپ کے پاس آیا ہے اسے واپس کریں۔ حضورؐ نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ابو بصیرؓ کو واپس کر دیا۔
میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ جناب نبی کریمؐ نے جنگ بھی کی ہے اور صلح بھی اور دونوں کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی پاسداری بھی کی۔ تاریخ آج بھی جنگ اور صلح دونوں حوالوں سے اگر کوئی آئیڈیل شخصیت پیش کر سکتی ہے تو وہ جناب رسول اکرمؐ کی ذات گرامی ہے۔ جبکہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جناب رسول اللہؐ کی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسری طرف چل پڑے ہیں۔ آج بھی اگر ہم جناب نبی کریمؐ کی صلح و جنگ کے اصولوں کو اپنائیں تو اسلام ہی آئیڈیل قانون اور ضابطہ ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
دارالہدٰی، سپرنگ فیلڈ، ورجینیا، امریکہ
تاریخ اشاعت: 
ستمبر ۲۰۰۷ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter