Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

38 - 50
نعت رسولؐ کے آداب
3 مئی کو جامعہ سرور کونینؐ بادامی باغ لاہور میں محفل حمد و نعت تھی جس میں ملک بھر کے نامور نعت خوان حضرات نے شرکت کی۔ جبکہ حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی اور مولانا مفتی محمد حسن کے خطابات ہوئے، اور مجھے بھی کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ اس سے دو روز بعد مسجد شہزادہ یوسف موتی بازار گجرات میں جمعیۃ علماء اہل سنت ضلع گجرات کے زیر اہتمام ماہانہ درس قرآن کریم کے عنوان سے بھی کم و بیش یہی معروضات پیش کیں۔ ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہم اپنی نسبت کے اظہار اور شناخت کے لیے کرتے ہیں کہ اس سے انسانی سوسائٹی کی رنگا رنگ تقسیم میں ہمارا تعارف ہو جاتا ہے اور آپؐ کے ساتھ نسبت کے اظہار کے بعد مزید کسی تعارف کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ ہم یہ تذکرہ محبت کے اظہار کے لیے بھی کرتے ہیں کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کا ذکر بھی اکثر زبان پر رہتا ہے۔ اور یہ ذکر کرنا نہیں پڑتا بلکہ خود بخود ہو جاتا ہے کہ محبت اپنا اظہار خود کرتی ہے اور اس کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس کے ساتھ ہم جناب نبی اکرمؐ کا تذکرہ برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے لیے کرتے ہیں کہ جہاں آقائے نامدار کا ذکر ہوتا ہے وہاں رحمتوں اور برکتوں کا صرف نزول نہیں ہوتا بلکہ بارش ہوتی ہے۔ جبکہ ہم جناب رسول اللہؐ کا ذکر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بھی کرتے ہیں کہ آپؐ کے ذکر سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں۔
آنحضرتؐ کا تذکرہ نثر میں ہو یا نظم میں، مدح و نعت کی صورت میں ہو یا رہبری و راہ نمائی کے حوالہ سے ہو، ہر طرح باعث برکت ہے۔ لیکن اس مبارک تذکرہ کے کچھ آداب ہیں جنہیں ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ آداب اور تقاضے قرآن کریم نے بھی بیان کیے ہیں اور خود حضورؐ نے بھی بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے دو تین کا تذکرہ کرنا اس وقت مناسب سمجھتا ہوں۔ مثلاً قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ
لَّا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا۔ (سورہ النور ۲۴ ۔ آیت ۶۳)
’’رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کے بلانے جیسا نہ سمجھو۔‘‘
اس کے مختلف معانی مفسرین کرامؒ نے بیان کیے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ جناب رسول اللہؐ کی دعا عام آدمی کی دعا کی طرح نہیں ہے۔ دوسرا معنٰی یہ ہے کہ حضورؐ کسی کو بلائیں تو ان کا بلانا عام آدمی کے بلانے کی طرح نہیں ہے۔ اور تیسرا معنٰی یہ ہے کہ حضورؐ کو اس طرح بے تکلفی سے نہ پکارو جس طرح ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ یہ مقام ادب ہے حتیٰ کہ اس کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ اگر مجلس میں تمہاری آواز رسول اللہؐ کی آواز سے بلند ہوگئی تو یہ سوء ادب تصور ہوگی اور تمہاری نیکیاں اس طرح برباد ہو جائیں گی کہ تمہیں شعور تک نہ ہوگا۔
اس پر مجھے اپنا بچپن کا ایک واقعہ یاد آیا ہے کہ ہمارے طالب علمی کے دور میں گوجرانوالہ میں ایک نعتیہ مشاعرہ تھا جس میں طرح مصرعہ یہ تھا:
دل زندہ جس سے ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
یہ مولانا ظفر علی خان مرحوم کی ایک معروف نعت کا مصرعہ ہے۔ مگر ایک شاعر شہید جالندھری مرحوم نے یہ کہہ کر مصرعہ بدل لیا کہ میرا حضورؐ کو ’’تمہی تو ہو‘‘ کہہ کر خطاب کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ اس لیے میں اسے ’’آپ ہی تو ہیں‘‘ میں تبدیل کر رہا ہوں۔ اس شاعر کی یہ بات میرے دل میں ایسی پیوست ہوئی کہ آج تک وہ منظر آنکھوں کے سامنے زندہ ہے۔ اس لیے نعت میں یا خطابت میں آنحضرتؐ کا تذکرہ اس طرح کی بے تکلفی کے ساتھ نہیں کرنا چاہیےجیسی ہم آپس میں روا رکھتے ہیں اور ادب و احترام کے تقاضوں کو ہر طرح سے ملحوظ رکھنا چاہیے۔
اسی طرح بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ ایک عید کے موقع پر انصار مدینہؓ کے کسی گھر میں گئے، وہاں چھوٹی بچیاں اپنے بڑوں کو یاد کر کے نظمیں گا رہی تھیں۔ حضورؐ سنتے رہے لیکن جب ایک بچی نے یہ پڑھا وفینا نبی یعلم مافی غد کہ ہمارے درمیان ایک پیغمبر موجود ہیں جو آنے والے کل کی بات بھی جانتے ہیں تو آپؐ نے اسے ٹوک دیا اور فرمایا کہ بیٹی! اس کو چھوڑ دو اور باقی جو کچھ پڑھ رہی ہو، پڑھتی رہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اللہؐ کا تذکرہ کرتے ہوئے عقائد کا بالخصوص عقیدۂ توحید کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ اور کوئی ایسی بات آپؐ کے حوالہ سے نہیں کہنی چاہیے جو عقیدہ کے منافی ہو اور اس سے اللہ تعالیٰ کی توحید پر زد پڑتی ہو۔
اس کے ساتھ ہی یہ روایت بھی ہے کہ جب جناب نبی اکرمؐ کے خلاف نعوذ باللہ عرب شاعروں کی طرف سے کی جانے والی ھجو کا جواب دینے کے لیے حضرت حسان بن ثابتؓ نے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں اپنی زبان کے ساتھ قریش کے شاعروں کو چمڑے کی طرح چیر کر رکھ دوں گا تو حضورؐ نے فرمایا کیف و فیھم نسبی؟ کہ ان کی مذمت کیسے کرو گے جبکہ میرا نسب بھی ان میں ہے؟ تو حضرت حسانؓ نے کہا کہ میں قریش کی ھجو کرتے ہوئے آپ کو ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے میں سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ اس پر حضورؐ نے انہیں ہدایت کی کہ وہ حضرت ابوبکرؓ سے مل کر ان سے نسب نامے کی تفصیل معلوم کر لیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قریش کی مذمت کرتے ہوئے آپؐ کی ذات گرامی بھی غیر شعوری طور پر زد میں آجائے۔
اس لیے میں نعت خوان حضرات سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نعت رسولؐ کا ناگزیر تقاضہ یہ ہے کہ آنحضرتؐ کا ذکر کرتے ہوئے اسلامی عقائد بالخصوص توحید کا خیال رکھا جائے۔ اورحضورؐ کا تذکرہ اس طرح بے تکلفانہ انداز میں نہ کیا جائے جیسے ہم آپس میں ایک دوسرے کا کرتے ہیں اور آپؐ کے تذکرہ میں سوء ادب کے ہر ممکنہ پہلو سے بچنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۸ مئی ۲۰۱۴ء (غالباً‌)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter