Deobandi Books

سیرتِ نبویؐ

ن مضامی

14 - 50
رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ
گزشتہ ایک کالم میں اس موضوع پر اظہار خیال کیا تھا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے معاملات میں، جن میں وحی کا نزول نہیں ہوتا تھا، ساتھیوں سےمشورہ کرتے تھے۔ عام لوگوں سے متعلقہ امور میں عام لوگوں کو شریک مشاورت کرتے تھے اور لوگوں کی رائے کو قبول بھی فرماتے تھے۔ آج اسی مسئلے کے ایک اور پہلو پر کچھ عرض کرنا مقصود ہے، وہ یہ کہ جناب رسول اللہؐ کو اس بات کا بھی خیال رہتا تھا کہ ان کے کسی کام سے لوگوں میں بلاوجہ غلط فہمیاں نہ پھیلیں او رپبلک تاثر درست رہے۔ عوامی زندگی میں اپنے بارے میں لوگوں کے تاثرات کو درست رکھنا اور مختلف کاموں کے بارے میں لوگوں کے احساسات و جذبات کا جائزہ لیتے رہنا اور انہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے اور یہ سنت نبویؐ بھی ہے۔ اس بارے میں دو واقعات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
ایک واقعہ بیت اللہ کی تعمیر کے سلسلہ میں ہے جسے امام بخاریؒ نے ام المومنین حضرت عائشہؓ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ خانہ کعبہ کی موجودہ تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کردہ بیت اللہ کے نقشہ کے مطابق نہیں ہے۔ ابراہیمی تعمیر میں حطیم سمیت پورے بیت اللہ پر چھت تھا، دروازہ زمین کے برابر تھا، اور آمنے سامنے دو دروازے تھے جس سے عام لوگوں کو یہ سہولت ہوتی تھی کہ وہ ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جاتے تھے اور انہیں بیت اللہ شریف کے اندر جانے کا موقع مل جاتا تھا۔ حضورؐ کی بعثت سے پہلے جب قریش مکہ نے بیت اللہ شریف کی دوبارہ تعمیر کی تو اعلان کے مطابق حلال کی کمائی کا چندہ اس قدر جمع نہیں ہو سکا کہ پورے بیت اللہ پر چھت ڈالی جا سکے۔ اس لیے ایک حصہ چھت سے باہر نکال دیا گیا جو حطیم کہلاتا ہے۔ دو کی بجائے ایک دروازہ کر دیا گیا اور وہ بھی زمین کے برابر رکھنے کی بجائے اونچا کر دیا گیا جس کی وجہ آنحضرتؐ نے یہ بیان فرمائی کہ قریش کے سردار یہ چاہتے تھے کہ کعبہ کے اندر وہی شخص داخل ہوسکے جسے وہ چاہیں اور اسی مقصد کے لیے ایک دروازہ ختم کر کے دوسرا اونچا کر دیا گیا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آپؐ نے ان سے یہ تفصیل بیان فرمائی تو انہوں نے دریافت کیا کہ وہ کعبہ کو گرا کر ازسرنو حضرت ابراہیمؑ والی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیوں نہیں کر دیتے؟ اس پر جناب رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ان کا اپنا جی بھی چاہتا ہے لیکن چونکہ قریش والے نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں اس لیے خدشہ ہے کہ وہ اسے محسوس کریں گے، اس لیے وہ ایسا نہیں کر رہے۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کو پبلک تاثرات کا کس قدر لحاظ رہتا تھا۔ بعد میں جب مکہ مکرمہ پر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی امارت قائم ہوئی تو انہوں نے حضورؐ کی خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے بیت اللہ کو گرا کر اسے ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کر دیا۔ لیکن جب حضرت عبد اللہ بن زبیر شہیدؓ ہوگئے اور حجاج بن یوسف نے مکہ مکرمہ کا چارج سنبھالا تو ابن زبیرؓ کا تعمیر کردہ کعبہ گرا کر اسے دوبارہ قریش کے نقشہ کے مطابق بنا دیا۔ اس کے بعد عباسی خلفاء کا دور آیا تو ان کی خواہش ہوئی کہ حجاج کی تعمیر کو گرا کر پھر سے بیت اللہ کو ابراہیمی بنیادوں پر ازسرنو تعمیر کیا جائے۔ مگر اس وقت کے سب سے بڑے عالم امام اہل سنت حضرت امام مالکؒ نے یہ محسوس کیا کہ اس طرح تو بیت اللہ سیاسی گروپوں کے درمیان بازیچۂ اطفال بن جائے گا اور جو حکمران بھی آئے گا وہ پہلے کی تعمیر گرا کر اسے ازسرنو تعمیر کرنا چاہے گا۔ چنانچہ انہوں نے فتویٰ دے دیا کہ بیت اللہ شریف قیامت تک اسی نقشہ کے مطابق رہے گا او راب اسے گرا کر نئے سرے سے بنانا جائز نہیں ہے۔ یوں انہوں نے اپنی مومنانہ فراست کے ساتھ خانہ کعبہ کو سیاسی گروپوں کی مخاصمت کا نشانہ بننے کے سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔
مگر اس واقعہ سے جو بات ہم عرض کرنا چاہتے تھے وہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام لوگوں کے احساسات و تاثرات کا اس حد تک خیال رکھا ہے کہ ایک کام کی خواہش کے باوجود اسے محض لوگوں کے احساسات کی وجہ سے روک دیا۔ اور اللہ تعالیٰ کو حضورؐ کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ تکوینی طور پر اسی صورت کو قیامت تک محفوظ رکھنے کا سامان کر دیا جسے رسول اکرمؐ نے صرف لوگوں کے احساسات و تاثرات کی وجہ سے بظاہر وقتی طور پر باقی رکھا تھا۔
دوسرا واقعہ بھی صحیح بخاری میں ہے اور وہ مدینہ منورہ میں منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی کے بارے میں ہے جس کی سازش اور شرارتیں سب کے سامنے عیاں ہو چکی تھیں۔ اس نے کئی موقع پر صحابہ کرامؓ کو آپس میں لڑانے کی سازش کی، قریش کے خلاف آنحضرتؐ کے غزوات میں اس نے درپردہ دشمنوں کی معاونت کی، ام المومنین حضرت عائشہؓ کے بارے میں نعوذ باللہ قذف کے جھوٹے الزام کی تشہیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اور ایک غزوہ کے موقع پر سفر کے دوران اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ شر انگیز مشورہ کیا کہ مدینہ منورہ واپس پہنچ کر وہ انصار مدینہ پر زور دیں گے کہ وہ مہاجرین پر خرچ کرنا بند کر دیں اور حضرت محمدؐ اور ان کے مہاجر ساتھیوں کو مدینہ سے نکال دیں۔ اس سازش اور مذموم مشورہ کی خبر حضورؐ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ایک مستقل سورت نازل کر کے دی۔ اور اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے جب حضرت عمر بن الخطابؓ نے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تاکہ وہ اس منافق کی گردن اڑا دیں تو آپؐ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اور بخاری شریف کی روایت کے مطابق اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ اس سے لوگ خواہ مخوا باتیں بنائیں گے کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔
اس واقعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام سے پہلے اس بات کا لحاظ رکھتے کہ اس سے عام لوگوں کا تاثر خراب نہ ہو۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۲۱ نومبر ۱۹۹۸ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 معجزہ شق القمر 1 1
3 اخلاق حسنہ، سیرت نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو 2 1
4 انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں 3 1
5 معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ 4 1
6 قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ 5 1
7 سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ 6 1
8 سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ 7 1
9 دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ 8 1
10 خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ 9 1
11 خاندان نبوتؐ 10 1
12 انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ 11 1
13 مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ 12 1
14 سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ 13 1
15 رائے عامہ کا لحاظ اور سنت نبویؐ 14 1
16 عبادات اور معاملات میں توازن 15 1
17 قوموں کی اچھی خصلتیں رسول اکرمؐ کی نظر میں 16 1
18 رسول اکرمؐ کا پیغام، دنیا کے حکمرانوں کے نام 17 1
19 مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ 18 1
20 سیرت نبویؐ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم 19 1
21 اتحاد امت اور اسوۂ نبویؐ 20 1
22 عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ 21 1
23 صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ 22 1
24 عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ 23 1
25 گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ 24 1
26 غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ 25 1
27 غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ 26 1
28 صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ 27 1
29 تجارت اور سیرت نبویؐ 28 1
30 خصائل نبویؐ، احادیث نبویؐ کی روشنی میں 29 1
31 علاج معالجہ اور سنت نبویؐ 30 1
32 نبی اکرمؐ کا معاشرتی رویہ اور روزمرہ معمولات 31 1
33 نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی 32 1
34 امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوۂ نبویؐ 33 1
35 عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں 34 1
36 میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ 35 1
37 حضورؐ کی مجلسی زندگی 36 1
38 نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے 37 1
39 نعت رسولؐ کے آداب 38 1
40 سیرت طیبہ اور امن عامہ 39 1
41 حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی 40 1
42 حضورؐ بطور سیاست دان 41 1
43 حضورؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل 42 1
44 تذکرۂ نبویؐ کے چند آداب 43 1
45 رسول اکرمؐ کی معاشرتی اصلاحات 44 1
46 حکمت عملی کا جہاد 45 1
47 معاہدۂ حدیبیہ کے اہم سبق 46 1
48 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۱) 47 1
49 دفاع وطن اور اسوۂ نبویؐ (۲) 48 1
50 ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ 49 1
51 صلح حدیبیہ کے چند اہم پہلو 50 1
52 اسباب اختیار کرنے میں توازن 4 5
53 اسباب ترک کرنے سے ممانعت 4 5
54 اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول 4 5
55 دولت کی گردش 4 5
56 ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم 4 5
57 غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات 4 5
58 حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت 4 5
59 ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ 4 5
60 ذِمّی کے لیے وظیفہ 4 5
61 تھیا کریسی اور پاپائیت 5 6
62 اسلام میں تھیا کریسی کا تصور 5 6
63 منہ بولے بیٹے کی حیثیت 5 6
64 اُمراء کے لیے الگ مجلس 5 6
65 حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم 5 6
66 حدودِ شرعیہ کا نفاذ 5 6
67 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت 5 6
68 حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ 5 6
69 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب 5 6
70 حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ 5 6
71 ’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے 5 6
72 ایک جامع شخصیت 6 7
73 خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث 6 7
74 حضورؐ کا معیارِ زندگی: 6 7
75 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی: 6 7
76 حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار 6 7
77 حاکم وقت کے احتساب کا حق 6 7
78 حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری 6 7
79 باہمی حقوق کی نوعیت 7 8
80 حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار 7 8
81 راستے کے حقوق 7 8
82 دینِ اسلام کی دعوت 7 8
83 اصلاحِ دین کی دعوت 7 8
84 ظلم سے روکنا 7 8
85 حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا 7 8
86 انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل 7 8
87 پڑوسی کے حقوق 7 8
88 جائز سفارش 7 8
89 جھگڑنے والوں میں صلح کروانا 7 8
90 دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت 8 9
91 اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب 8 9
92 رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت 8 9
93 اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام 8 9
94 حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام 8 9
95 یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام 8 9
96 امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام 8 9
97 دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ 8 9
98 دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت 9 10
99 مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ 9 10
100 عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا 9 10
101 خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا 9 10
102 عورت کا رائے کا حق 9 10
103 ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا 9 10
104 عورت اور تعلیم و تعلّم 9 10
105 مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن 9 10
106 اسلام کا خاندانی نظام 9 10
107 نبی کریمؐ کے والدین 10 11
108 نبی کریمؐ کی ازواج 10 11
109 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 10 11
110 حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 11
111 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 10 11
112 حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا 10 11
113 حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا 10 11
114 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا 10 10
115 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
116 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا 10 11
117 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 10 11
118 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا 10 11
119 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا 10 11
120 نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول 10 11
121 نبی کریمؐ کی اولاد 10 11
122 حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 10 11
123 حضرت زینب رضی اللہ عنہا 10 11
124 حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 10 11
125 حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 10 11
126 حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 10 11
127 نبی کریمؐ کے متعلقین 10 11
128 اسلام میں حقوق کا تصور 11 12
129 حقوق اللہ اور حقوق العباد 11 12
130 رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز 11 12
131 جان، مال اور آبرو کی حفاظت 11 12
132 اپنا حق طلب کرنے کا شعور 11 12
133 رشتہ داروں کے حقوق 11 12
135 عورتوں کے حقوق 11 12
136 پڑوسیوں کے حقوق 11 12
137 نادار لوگوں کی مدد 11 12
138 نجی زندگی کا تحفظ 11 12
139 قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا 11 12
140 اسلام میں غلامی کا تصور 11 12
141 سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار 12 13
142 انسانی اخلاق 12 13
143 بہترین اخلاق کے لوگ 12 13
144 نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت 12 13
145 سچائی 12 13
146 تحمل 12 13
147 امانت 12 13
148 ایفائے عہد 12 13
149 خوش طبعی 12 13
150 تواضع 12 13
152 اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے 20 21
153 وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات 20 21
154 توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل 20 21
155 اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل 21 22
156 اپنی ذات کے ساتھ عدل 21 22
157 اہل خانہ کے ساتھ عدل 21 22
158 قانون کی نظر میں برابری 21 22
159 رسول اللہؐ اور عدل 21 22
160 انبیاء کرامؑ کے ساتھ عدل 21 22
161 زندگی کا حق 23 24
163 تعلیم کا حق 23 24
164 رائے کا حق 23 24
165 حضورؐ کی گھریلو زندگی 24 25
166 نکاح، سنت نبویؐ 24 25
167 نبی کریمؐ کا رات کی عبادت کا معمول 24 25
168 گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب 24 25
169 گھر میں دینی ماحول، گھر کے سربراہ کی ذمہ داری 24 25
170 رمضان المبارک میں حضورؐ کا معمول 24 25
171 نبی کریمؐ کی امتِ دعوت 25 26
172 غیر مزاحم کفار 25 26
173 دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار 25 26
174 اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار 25 26
175 منافقین 25 26
176 نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ 25 26
177 غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل 25 26
178 غلامی کیا ہے؟ 26 27
179 آزاد آدمی کا غلام بننا 26 27
180 جنگی قیدی کا غلام بننا 26 27
181 اسلام میں غلامی کا تصور 26 27
182 آج کے دور میں غلامی 26 27
183 اسلام میں جنگ کا تصور 27 28
184 جہاد کس لیے؟ 27 28
185 اشاعتِ اسلام کے لیے جبر 27 28
186 اشاعتِ اسلام کا سبب 27 28
187 اسلام میں صلح کا تصور 27 28
188 سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ 28 29
189 تجارت کے اصول و ضوابط 28 29
190 دھوکے سے خراب مال بیچنا 28 29
191 جھوٹی بولی دینا 28 29
192 تجارتی مال پر اجارہ داری 28 29
193 جمعہ کے اوقات میں تجارت 28 29
194 ذخیرہ اندوزی 28 29
195 سودی کاروبار 28 29
196 اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق 28 29
197 اسلام کے مسلمہ عقائد کا لحاظ 43 44
198 بزرگوں کا ادب و احترام 43 44
199 نبیوںؑ کے آپس میں تقابل سے گریز 43 44
200 اللہ کے بندے اور رسول محمدؐ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام۔ 17 18
201 سربراہِ مملکت کا معیار زندگی 6 7
Flag Counter