ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
یہودی نے کہا سورۂ مائدہ کی یہ آیت( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ) ١ ''آج میں نے مکمل کردیا تمہاے لیے تمہارا دین اور پوری کردی تم پر اپنی نعمت اور میں نے پسند کیا تمہارے لیے دین ِ اسلام۔ '' حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہمیں وہ دن بھی معلوم ہے جس دن یہ آیت نازل ہوئی تھی اور وہ جگہ بھی معلوم ہے جہاں یہ آیت نازل ہوئی تھی حجة الوداع کے موقع پر آنحضرت ۖ عرفات میں رونق افروز تھے وہاں یہ آیت نازل ہوئی تھی، دن جمعہ کا تھا۔ یعنی ہم نے اپنی طرف سے اُس دن عید نہیں منائی بلکہ نزول ہی اس دن اور اس مقام پر ہوا جو نہایت متبرک ہے، ذی الحجہ کی نویں تاریخ (عرفہ کا) متبرک (دن) ، مقامِ عرفات متبرک اور جمعہ کا دن متبرک۔ غرض اسی دین ِمکمل کا ایک کمال یہ ہے کہ مرنے کے بعد مردے کایہ اعزاز ہو رہا ہے، غسل دیاگیا کفن پہنایا گیا اب سب مل کر صفین باندھ کر اس کے لیے دعا کر رہے ہیں اوّل اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا پھر آنحضرت ۖ پر درود پھر میت کے لیے دعا پھر تکبیر کہتے ہوئے سلام پھیر رہے ہیں اور رخصت ہونے والے کو رخصت کررہے ہیں، یہ ہے دین ِمکمل کی مکمل تعلیم۔ لیکن نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ہی میں کچھ وہ ہیں جو نیکی اور دینداری کا دعوی کرتے ہوئے اپنے عمل سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ معاذ اللہ دین کی تعلیم مکمل نہیں ہے اس لیے چیپی لگانے کی ضرورت ہے مثلاً نمازِ جنازہ کے بعد فاتحہ پڑھایا جاتا ہے کچھ اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں جو نہ حدیث کی کتابوں میں ہیں نہ فقہ کی کتابوں میں، ایجادِ بندہ ہیں، یہ ایجادِ بندہ نیکی کی حرص میں ہوئی ہے مگر یہ حرص ایسی ہے جیسے عیسائیوں نے تیس سے بڑھا کر چالیس روزے کر لیے تھے یعنی اس حرص کا نتیجہ یہ تھا کہ دین میں تحریف کر لی لہٰذا پوری احتیاط کی ضرورت ہے کہ صرف وہی عمل کیے جائیں جو شریعت سے ثابت ہیں اپنی طرف سے نئی شریعت نہ بنائی جائے چنانچہ فتاوی بزازیہ میں ہے : ------------------------------١ سُورة المائدہ : ٣