ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
بالتراضي‘‘ (مال کا تبادلہ مال سے کرناعاقدین کی رضامندی کے ساتھ) ہے،- ’’ ہو مبادلۃ المال بالمال بالتراضي‘‘ ۔ (البحر الرائق: ۵/۴۲۹)-اور مال کو عین یعنی مادی محسوس چیز کے ساتھ خاص کیا گیا ہے، جب کہ دیگر بعض فقہاء نے ’’ایک مرغوب چیز کا دوسری مرغوب چیز سے تبادلہ کرنا‘‘ سے بیع کی تعریف کی ۔ ’’ مبادلۃ شيء مرغوب بشيء مرغوب ‘‘ ۔ (بدائع :۶/۵۲۸)-لیکن مرغوب چیز سے مراد اُن کے یہاں بھی ’’مبادلۃ المال بالمال ‘‘ ہی ہے۔اور حقوقِ مجردہ اعیان یعنی مادی اور محسوس چیزیں نہیں ہیں،اس لیے ان حضرات نے حقوقِ مجردہ کی بیع کو ناجائز قرار دیا۔ فقہاء شافعیہ نے بیع کی تعریف ان الفاظ میں کی: ’’ عقدٌ یتضمن مقابلۃ مال بمال بشرطہ الآتي لاستفادۃ ملک عین أو منفعۃ مؤبدۃ ‘‘-’’بیع وہ عقد ہے جس میں مال کا تبادلہ مال سے ہوگا آنے والی شرطوں کے ساتھ تاکہ متعین مادی چیز کی ملکیت یا اس سے ابدی منفعت حاصل ہوجائے۔‘‘ (حواشی الشروانی علی تحفۃ المحتاج: ۴/۲۱۵، الموسوعۃ الفقہیۃ :۹/۵) فقہاء حنابلہ نے بیع کی تعریف یوں کی : ’’ مبادلۃ عین مالیۃ أو منفعۃ مباحۃ مطلقًا بأن لا تختص إباحتہا بحال دون آخر کممرّ دار أو بقعۃ تحفر بئرًا بأحدہما أي عین مالیۃ أو منفعۃ مباحۃ مطلقًا فیشمل نحو بیع کتاب بکتاب أو بممرّ في دارٍ أو بیع نحو ممرّ في دار بکتاب أو بممر في دار أخری ‘‘۔’’بیع ایک مالیت رکھنے والی چیز کا تبادلہ ہے یا مطلق مباح منفعت کا تبادلہ ہے جس کی اباحت کسی ایک حال کے ساتھ مخصوص نہ ہو، (دوسری مالیت رکھنے والی چیز یامطلق مباح منفعت) سے جیسے گھر کی گزرگاہ یا زمین کا وہ حصہ جس میں کنواں کھودا جائے، ان میں سے ایک کا دوسرے سے تبادلہ، یعنی ایک طرف عین مالیت اور دوسری