ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
سوال: بعد سودا خریدنے کے جو بائع بچوں کو یا بڑوں کو کچھ دیدیتا ہے جس کو رونگا کہتے ہیں وہ مطلقاً ناجائز ہے یا بلا اجبار درست ہے؟الجواب : یہ زیادۃ فی المبیع ہے اور حسب تصریح فقہاء مباح ہے بشرط تراضی ۔ (امداد الفتاویٰ :۳/۲۲)نظام الفتاویٰ میں مفتی نظام الدین صاحب سابق مفتی اعظم دار العلوم دیوبند لکھتے ہیں: ’’ اگر وہ سیٹھ بنڈل سوت کے بازار کے عام شرح کے مطابق فروخت کرتا ہے اور ہزار بنڈل فروخت ہونے تک ہر بنڈل میں ایک پرچی رکھ دیتا ہے اوران ہزار پرچیوں میں سے صرف ایک پرچی پر سائیکل لکھ دیتا ہے اور جس کے بنڈل میں وہ پرچی نکل آتی ہے اس کو خود بطور انعام بغیر کسی قیمت کے دے دیتا ہے ، تو یہ اس سیٹھ کا ایک قسم کا اپنے گاہکوں کو انعام دینا ہے ، اور اپنے مال کی نکاسی کے ـلیے ترغیب دینا ہے، اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے۔‘‘ (فتاویٰ نظامیہ اوندراویہ:۲/۳۴۱) احسن الفتاویٰ میں اسی طرح ایک سوال کا جواب اس طرح مذکور ہے۔ ’’یہ قیمت میں کمپنی کی طرف سے رعایت ہے اور کس خریدار کو رعایت دی جائے اس کا انتخاب وہ بذریعہ قرعہ اندازی کرتی ہے، اس میں کسی کا کوئی نقصان نہیں، لہٰذا یہ خرید وفروخت جائز ہے‘‘۔(احسن الفتاویٰ:۶/۵۱۸) (ماہنامہ مظاہر علوم ، مارچ ۲۰۱۲ء)مذکورہ وضاحت کی وضاحت : محترم مفتی صاحب کی اس وضاحتی تحریر سے جو باتیں واضح ہورہی ہیں، وہ یہ ہیں: ۱- بیع نام ہے ’’ مبادلۃ المال بالمال بالتراضی ‘‘کا ، اورجس طرح نقد بیع کرنا جائز ہے ، اسی طرح ادھار بیع کرنا بھی جائز ہے چاہے وہ عروض کی بیع ہو یا زمین کی بیع وشراء ہو،(آپ کی اس تحریر سے ہمیں کوئی انکار نہیں، کیوں کہ یہ دونوں باتیں ہمارے علم میں بھی