ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
مذکورہ فتوے کا دفعیہ : دار الافتاء دار العلوم کراچی کے اس فتوے میںچونکہ حضرت مفتی صاحب کے سامنے بیع عقار کی حذف وترمیم والی صورت پیش کی گئی ، جس سے حضرت مفتی صاحب کو یہ التباس ہوا کہ بیع کی یہ صورت ، بیعِ تام ہے، اور اسی وجہ سے آپ نے اسے بیع تام قرار دے کر قبل القبض آگے اس کی فروختگی کو حضراتِ شیخین کے قول کے مطابق جائز لکھا، جب کہ بیع تام کی صورت میں قبل القبض آگے اس کی فروختگی میں ہمارا اپنا موقف مذہبِ شیخین کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ہی وہ یہاں موضوعِ بحث ہے، موضوعِ بحث تو معاہدۂ بیع کی صورت میں بیع عقار قبل القبض کا مسئلہ ہے، اور اس کا عدم جواز خود حضرت مفتی صاحب کے فتوے کے اس حصہ سے ثابت ہورہا ہے: ’’ اگر زمین اور ثمن متعین ہوکر ایجاب وقبول کے ذریعہ باقاعدہ خرید وفروخت کا معاملہ ہوگیا (یعنی صرف وعدہ نہ ہوا ہو)، اور بائع نے اپنے لیے کسی قسم کا خیار بھی نہ رکھا ہو، تو ایجاب وقبول ہوتے ہی بیع پوری ہوگئی اور زمین خریدار کی ملکیت میں آگئی، لہذا اب مشتری کے لیے اس کو آگے فروخت کرنا جائز ہے، اگرچہ ثمن کی ادائیگی یا رجسٹری نہ ہوئی ہو، کیوں کہ خریداری کے بعد ملکیت میں آنے کے لیے ثمن ادا کرنا یا زمین خریدار کے نام پر رجسٹرڈ ہوجانا شرعاً ضروری نہیں۔‘‘ لہٰذا دار العلوم کراچی کا یہ فتویٰ مفتی محمد صالح کے موقف کا مؤید نہیں بن سکتا۔