ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
کہ شفیع کے لیے حق شفعہ قبضہ سے قبل ہی ثابت ہوجاتا ہے اور شفیع ثمن کا بدل ادا کرکے اس زمین کا مالک ہوجاتا ہے، قلناشرط ثبوت الملک بالتصرف فی المحل أصل الملک دون الضمان، والدلیل علیہ ان حق الشفعۃ یثبت للشفیع قبل القبض والشفیع یتملک ببدل فلو کان العقار قبل ا لقبض لا یحتمل التملک ببدل لما ثبت للشفیع حق الأخذ قبل القبض الخ ۔ (المبسوط:۷/۱۰)(تجارتی انعامی اسکیمیں) عام طور سے تجار حضرات اپنے سامان کو زیادہ سے زیادہ فروخت کرنے کے لیے انعامی اسکیمیں نکالتے ہیں، تو شرعاً ان اشیاء کا خریدنا درست ہے اور درست ہونے کی وجہ یہ ہے کہ خریدار جتنا روپیہ دوکاندار کو دے رہا ہے اس کی رقم کا کوئی بھی حصہ کسی بھی وقت داؤ پر نہیں لگ رہا ہے بلکہ دوکاندار اس کی پوری رقم کا معاوضہ مبیع کی شکل میں حوالہ کردیتا ہے او رانعام کی شکل میں مزید ایک چیز دینے کا یکطرفہ وعدہ بھی کررہا ہے تو شرعاً اس کو قمار (جوا) نہیں کہا جاسکتا، اس لیے قمار اس وقت ہوتا ہے جب ایک طرف سے ادائیگی یقینی ہو اور دوسری طرف سے محض محتمل ہو اور جہاں دونوں طرف سے ادائیگی متیقن ہو اور ایک فریق یہ کہے کہ میں قرعہ اندازی کروں گا اور اس میں جس کا بھی نام آئے گا اس کو انعام بھی ملے گا تو وہ قمار نہیں، چنانچہ جہاں سب شرکاء کے حقوق متساوی ہوں وہاں قرعہ اندازی حدیث سے ثابت ہے، شمس الأئمہ سرخسی لکھتے ہیں ان رسول اللہ ﷺکان إذا سافر أقرع بین نسائہ … واعلم بأن المرأۃ لا حق لہا فی القسم عند سفر الزوج فکان لرسول اللہ ﷺ ان لا یسافر بواحدۃ منہن وان یسافر بمن شاء منہن من غیر قرعۃ ولکنہ کان یقرع بینہن تطییباً لقلوبہن فاستعمال القرعۃ فی مثل ہذا الموضع جائز عند العلماء اجمع - فیستعمل القرعۃ لتطییب قلوب الشرکاء ونفی تہمۃ لمیل عن نفسہ وذلک جائز الخ (المبسوط)۔ اور علامہ ابن ہمام نے لکھا ہے :ونحن لاننفی