ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
جوابات بابت کرایہ داری میں ڈپازٹ ۱ - اگر ڈپازٹ کی رقم معمولی ہو تو ماہانہ کرایہ کی رقم زیادہ، اور اگر ڈپازٹ کی رقم بھاری مقدار میں ہوتو ماہانہ کرایہ کی رقم بہت معمولی ، معاملہ کی یہ صورت شرعاً جائز نہیںہونی چاہیے ، کیوں کہ یہ ’’ کلّ قرض جرّ نفعاً فھو ربا ‘‘ کے تحت داخل ہے۔ ۲- ڈپازٹ کی رقم رہن اور زرِ ضمانت ہے۔ ۳- ڈپازٹ کی اس رقم کو مالک ِ جائداد کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ۔ ۴- اس معاملہ کو شرعی جواز کے دائرہ میں لانے کے لیے یہ شکل اپنائی جاسکتی ہے کہ زرِ ضمانت کے طور پر دی جانے والی رقم کو پیشگی کرایہ قرار دیا جائے ، اور مالک مکان یا دکان اس سے اپنے کرایہ کی متعینہ رقم بتدریج منہاکرتا جائے ، اس طرح کرنے سے مالک مکان ودکان اس رقم کا مالک بن جائیگا، اس کا استعمال اس کے لیے درست ہوگا، اور اس کی زکوۃ بھی اس پر واجب ہوگی، نیز کرایہ کی رقم پیشگی وصول ہونے کی وجہ سے مکان یا دکان کے مروجہ کرایہ میں کمی کرنا یہ بھی شرعاً جائز ہوگا، جیسے نقد اور ادھار بیع میں قیمتوں کا تفاوت جائز ودرست ہے، برخلاف اس کے کہ ڈپازٹ اور زرِ ضمانت کو قرض کے حکم میں قرار دے کر مالک اور کرایہ دار کو یہ تلقین کرنا کہ وہ اس قرض کی بنا پر مروجہ کرایہ میں کمی بیشی نہ کریں، محلِ غور ہے، کیوں کہ مشاہدہ یہ ہے کہ عام طور پر کرایہ داری کے معاملات میں یہی ہوتا ہے کہ جس قدر زرِ ضمانت زیادہ دیا جاتا ہے ، کرایہ کم رکھا جاتا ہے، اور زرِ ضمانت کے کم ہونے کی صورت میں کرایہ زیادہ متعین کیا جاتا ہے، اور ظاہر ہے معاملہ کی یہ صورت شبہ ربا سے خالی نہیں۔ ۵- ڈپازٹ کی اس رقم کو اگر قرض قرار دیا جاتا ہے، تومالک مکان ودکان پر اس کی