ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
آپ کی دعاؤں کا طلبگار ۱۰؍ رجب المرجب ۱۴۳۲ھ الجواب حامداً ومصلیاً واضح رہے کہ خرید وفروخت کے معاملہ کے شرعاً درست ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بیچنے والا جو چیز بیچ رہا ہے وہ اس کی ’’ملکیت‘‘ میں ہو ، اور وہ اسے بغیر کسی عدالتی کاروائی کے خریدار کو حوالے کرنے پر بھی قادر ہو، اگر بیچنے والا ’’ مبیع‘‘ (بیچی جانے والی چیز) کا مالک نہ ہو، یا مالک تو ہو لیکن اسے خریدار کے حوالہ کرنے پر قادر نہ ہو، تو پہلی صورت میں ’’مبیع غیر مملوک‘‘ اور دوسری صورت میں ’’ مبیع غیر مقدور التسلیم‘‘ ہونے کی وجہ سے خرید وفروخت کا معاملہ درست نہ ہوگا (کما فی العبارۃ:۱) ،اس تمہید کے بعد سوال میںذکر کردہ صورتوں سے متعلق عرض یہ ہے کہ: (الف، ب) ۔۔۔ ان دونوں صورتوں میں چوں کہ باقاعدہ خرید وفروخت کا معاملہ (Sale Deed) نہیںکیا جاتا، بلکہ محض بیچنے کا وعدہ (Agreement to sell) کیا جاتا ہے، اس لیے ان صورتوں میں زمین یا پلاٹ خریدار کی ملکیت میں ہی نہیں آتی، اس لیے ان صورتوں میں خریدار کے لیے زمین یا پلاٹ کامالک ہونے سے پہلے اسے آگے بیچنا بھی شرعاً درست نہیں۔ (ج) ۔۔۔ بیعانہ کی رقم عموماً وعدۂ بیع (Agreement to sell)کے بعد دی جاتی ہے، اور باقاعدہ خرید وفروخت کا معاملہ (Sale Deed)اس وقت ہوتا ہے جب خریدار مکمل قیمت کی ادائیگی کردیتا ہے، اور وعدۂ بیع (Agreement to sell)کے بعد خریدار کا بائع کی اجازت سے آگے