ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
’’ فلأن الحکمۃ تقتضیہ ، لتعلق حاجۃ الإنسان بما في ید صاحبہ ، ولا سبیل إلی المبادلۃ إلا بعوض غالبًا ، ففي تجویز البیع وصول إلی الغرض ودفع للحاجۃ ‘‘ ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ :۹/۸)ارکانِ بیع اور اس کی شرطیں : جمہور مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک ایجاب وقبول ، عاقدین اور معقود علیہ یا محل عقد (مبیع وثمن) یہ تمام ارکانِ بیع ہیں، کیوں کہ ان حضرات کے نزدیک ’’رکن‘‘ اسے کہتے ہیں جس پر شی ٔ کا وجود اور اس کا تصورعقلا موقوف ہو، خواہ وہ اس شی ٔ کی حقیقت کا جز ہو یا نہ ہو، اور بیع کا وجود عاقدین اور معقودعلیہ پر موقوف ہوتا ہے، گرچہ عاقدین اور معقود علیہ حقیقتِ بیع کا جز نہیں ہیں، جب کہ احناف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ عقدِ بیع میں رکن صرف ایجاب وقبول ہے، رہے متعاقدین اور معقود علیہ یا محلِ عقد، تو یہ مستلزماتِ وجودِ صیغہ (ایجاب وقبول) ہیں، نہ کہ ارکان، کیوں کہ ایجاب وقبول کے علاوہ جو چیزیں ہیں ، وہ حقیقتِ بیع کا جز نہیں ہیں، گرچہ ان پر بیع کا وجود موقوف ہے۔ بعض فقہاء معاصرین نے ایجاب وقبول ، عاقدین اور محلِ عقد کے مجموعے کو ارکانِ بیع سے موسوم کرنے کو مستحسن قرار دیا ہے، کیوں کہ ان مقوّماتِ عقد کے بغیر ، عقدِ بیع نہ ہونے پر تمام فقہاء کرام کا اتفاق ہے۔ ’’ فالجمہور المالکیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ یرون أن ہذہ کلہا أرکان البیع ، لأن الرکن عندہم ما توقف علیہ وجود الشيء ، وتصورہ عقلا ، سواء أکان جزئً من حقیقتہ أم لم یکن ، ووجود البیع یتوقف علی العاقدین والمعقود علیہ وإن لم یکن ہؤلاء جزئً ا من حقیقتہ ، ویری الحنفیۃ أن الرکن في عقد البیع وغیرہ : ہو الصیغۃ فقط ، أما العاقدان والمحل فمما یستلزمہ وجود الصیغۃ لا من الأرکان