ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
التباس واختلاف کا دفاع : مدیر تحریر ماہنامہ مظاہر علوم ، مولانا عبد اللہ خالد قاسمی خیرآبادی نے جب دیکھا کہ میری اس حذف وترمیم کی وجہ سے ہی یہ التباس واختلاف پیدا ہوا، تو اپنے دفاع کے لیے دار العلوم کراچی اور دار العلوم دیوبند سے فتاویٰ بھی منگوالیے، لیکن استفتاء میں بیع عقار سے متعلق ہماری اپنی محررہ مکمل صورت ذکر نہیں کی، بلکہ وہی حذف وترمیم والی صورت پیش کی ، جو موصوف اپنے ماہنامہ میں شائع کرچکے تھے، ظاہر سی بات ہے ہر دار الافتاء کا مفتی اسی صورت پر فتویٰ دیتا ہے جو اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے، لہذا یہ دونوں فتاویٰ ہمارے موقف کے خلاف تائید میں پیش نہیں کیے جاسکتے، کیوں کہ ان میں بیع عقارکی وہ مکمل صورت پیش نہیں کی گئی ، جو مضمون میں موجود ہے۔موصوف کا استفتاء اور دار العلوم کراچی ودار العلوم دیوبند کے فتاویٰ ملاحظہ ہوں:دار العلوم کراچی کا فتویٰ : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: ’’آج کل زمینوں کی خرید وفروخت بڑے پیمانے پر اس طرح کی جارہی ہے کہ خریدار ،مالکِ زمین سے زمین کا سودا کرلیتا ہے، اور بیعانہ کے طور پراسے کچھ رقم دیدیتا ہے، جسے مارکیٹنگ کی زبان میں ’’ٹوکن ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، پھر پوری قیمت کی ادائیگی اور خریدی رجسٹری کے لیے ایک مدت متعین ہوتی ہے، مدت کے پوری ہونے پر خریدار پوری رقم دے کر مالکِ زمین سے اپنے نام زمین کی خریدی رجسٹری کرواتا ہے ، مگر اس مدت کے درمیان خریدار ،اس زمین کی خریدی رجسٹری اپنے نام پر ہونے سے پہلے ہی اسے کسی تھرڈ پارٹی (Third Party)کے ہاتھوں منافع کے ساتھ فروخت کر دیتا ہے، اور اس سے حاصل کردہ رقم سے مالکِ زمین کا پورا