ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
مضمون میں بیع عقار کی اس صورت کو ناجائز قرار دیا گیا، اور اس کی تائید دارالعلوم دیوبند کے مذکورہ بالا فتوے سے بھی ہوتی ہے۔…لہٰذا دار العلوم دیوبند کا یہ فتویٰ بھی مولانا مفتی محمد صالح کے موقف کا مؤید نہیںہوسکتا۔تجارتی انعامی اسکیمیں : مفتی محمد صالح صاحب نے انعامی اسکیموں سے متعلق اپنے موقف کی وضاحت میں یہ تحریرکیا کہ انعامی اسکیموں کی: ’’مذکورہ صورتیں بھی ہمارے نزدیک عدم جواز کے دائرہ میں نہیں آتیں، اس لیے کہ اس کا مقصد جُوا ، اور قمار ہے ہی نہیں اور نہ اس پر جوئے کی تعریف صادق آتی ہے، اس لیے کہ خریدار جتنی رقم دوکاندار کو دے رہا ہے اس کا معاوضہ دوکاندار سے مبیع کی شکل میں وصول کرلیتا ہے، بعد میں بشکل انعام بائع مشتری کو جو کچھ بھی دیتا ہے چاہے قرعہ کی شکل میں ہو یا متعین صورت میں ہو ، وہ اس کی طرف سے انعام اور زیادتی فی المبیع شمار ہوگی ، اور فقہاء نے بیع مکمل ہوجانے کے بعد زیادتی فی المبیع کی اجازت دی ہے بشرطیکہ خوش دلی ورضامندی سے ہو۔‘‘ بندے نے انعامی اسکیموں کے عدم جواز سے متعلق علماء عرب کے جو فتاویٰ(اثناء مراسلت) نقل کیے تھے ، ان کے متعلق مفتی موصوف نے لکھا کہ ہمیں ان سے اتفاق نہیں ہے ،… ٹھیک ہے! مفتی موصوف کو علماء عرب کے فتاویٰ سے اتفاق نہ ہو، لیکن اسی ضمن میں مفتی عبد الواحد صاحب پاکستان وفقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کی آراء کو بھی آں جناب نے ناقابلِ التفات قرار دیا،اتنا ہی نہیں، بلکہ دار العلوم دیوبند کے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ کے