ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
جوابات بابت حقوق ۱- مذکورہ مروجہ معروف حقوق کے بدلہ میں عوض لینا شرعاً درست نہیں ہے۔ ۲- اگر کسی نے اس طرح عوض لے لیا ، تو دوبارہ اس کے مالک کو واپس لوٹادے۔ ۳- بیع میں مال کی شرط جوہری ہے، مال کی حقیقت نصوصِ شرعیہ نے متعین نہیں کی، پس اُس کا اصل مدار ہر عہد کے اُس عرف ورواج پر ہے جو شریعت سے متصادم نہ ہو، وہ تمام حقوق جن کی مشروعیت اصالۃً نہیں بلکہ صاحبِ حق سے کسی ضرر کو دور کرنے کے لیے ہوتی ہے، ایسے حقوق پر عوض لینا جائز نہیں، جیسے شفعہ ۔ جو حقوق نصوصِ شرعیہ سے ثابت ہوں، البتہ اُن سے مالی منفعت متعلق ہوگئی اور عرف میں اُن کا عوض لینا مروج اور معروف ہوچکا ہو، نیز ان کی حیثیت دفعِ ضرر کی نہ ہو، اور نہ وہ شریعت کے عمومی مقاصد ومصالح سے متصادم ہوں، ایسے حقوق پر عوض حاصل کرنا جائز اور درست ہے۔ (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے: ص/۱۴۲) حقوق کی بیع سے متعلق اسلامک فقہ اکیڈمی کی اِس تجویز پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سوالنامہ میں مذکور حقوق کو مالِ متقوم کی حیثیت دے کر اُن کی بیع کو جائز نہیں کہا جاسکتا۔