ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
بیع عقارقبل القبض ) 's Sale Before hold (Real Stateعلماء واربابِ افتاء کے لیے مقام فکر ونظر بیع کی حقیقت : ’’بیع‘‘ (Sale)نام ہے آپسی رضامندی کے ساتھ مال کا مال کے عوض تبادلہ کا ‘‘ …’’ مبادلۃ المال بالمال بالتراضي ‘‘ ۔ (تحقیق وتعلیق بہامش الشامي :۷/۳ ، کتاب البیوع ، بیروت ، الجوہرۃ النیرۃ :۱/۴۳۱) قریش کی زبان میں’’ بائع‘‘(Seller/Dealer) اس شخص کو کہا جاتا تھا جو کسی شی ٔ کو اپنی ملک سے خارج کیا کرتا تھا، اور’’مشتری‘‘ (Purchaser /Buyer)اسے کہتے تھے جو کسی شی ٔ کو اپنی ملک میں داخل کر لیتا تھا۔ ’’ وذکر الحطاب أن لغۃ قریش استعمال (باع) إذا أخرج الشيء من ملکہ و (اشتری) إذا أدخلہ في ملکہ وہو أفصح ، وعلی ذلک اصطلح العلماء تقریبًا للفہم ‘‘ ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ :۹/۵)سببِ مشروعیتِ بیع :انسانی زندگی کابقا چوں کہ مختلف چیزوں سے وابستہ ہے، اور ہر انسان کے پاس اس کے ضرورت کی وہ تمام چیزیں موجود نہیں ہوتیں، بلکہ ایک چیز کسی کے پاس ، تودوسری چیز کسی کے پاس، اورتیسری چیز کسی اور کے پاس (ھلم جرا) ، اور ظاہر سی بات ہے کہ جس شخص کے پاس جو چیز بھی ہے وہ غالباً بلا عوض نہیں دیتا، اس لیے شریعت نے انسانی غرض تک رسائی اور دفعِ حاجت کی خاطر بیع کو جائز قراردیا ۔