ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
جوابات بابت طویل مدتی کرایہ ۱- طویل مدتی کرایہ داروں کو شرعاً کرایہ دار ہی کے درجہ میں ماناجائے گا، مالک کے درجہ میں نہیں۔(۱۵) ۲- اس طرح کی دکانوں اور مکانوں میں کرایہ دار کے انتقال کے بعد وارثین کا حق نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ دکان یا مکان اُس کرایہ دار کی ملکیت نہیں ہے، جب کہ اِرث کے جاری ہونے کے لیے مالِ موروث میں مورِث کی ملک کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔(۱۶) ۳- اصل کرایہ دار کے انتقال کے بعد چوں کہ اُس کے ساتھ کرایہ داری کا معاملہ ختم ہوجاتا ہے(۱۷)، اِس لیے اُس کے انتقال کے بعد اگر اُس کا کوئی وارث مالکِ مکان یا دکان سے ڈیل کرکے ، کرایہ داری کا معاملہ اپنے نام کرالے ، تو اس کا یہ عمل شرعاً درست ہے، اور اگر قانون کا سہارا لے کر اس مکان یا دکان پر قبضہ کیا، جب کہ مالک مکان یا دکان یا اس کے ورثاء موجود ہیں، جن کے ساتھ نیا کرایہ داری کا معاملہ کیا جاسکتا ہے، تو اُس کا یہ عمل شرعاً درست نہیں ، بلکہ وہ حق غیر پر جبری قبضہ اور اسے استعمال کرنے کی وجہ سے سخت گنہگار ہوگا۔(۱۸) ۴- کرایہ دار کا مکان یا دکان خالی کرنے کا عوض لینا سراسر ظلم اور گناہ ہے، اور وہ مال، مالِ حرام ہے ، اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی، بلکہ اس کے اصل مالک کو لوٹانا ضروری ہے(۱۹)، ہاں! اگر کرایہ دار نے کرایہ کا معاملہ کرتے وقت مالک مکان یا دکان کو زرِ ضمانت دیا تھا، اور اس کے انتقال کے بعد اجارہ کے فسخ ہونے کی صورت میں مالک مکان یا دکان وہ رقم ورثاء کو واپس کرتا ہے ، تو اس میں وراثت جاری ہوگی۔