ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
پہلی تحریر کا جواب : بندے نے موصوف کی مذکورہ تحریر کا جو جواب ارسال کیا وہ یہ ہے: احقر نے مفتی صاحب اورآںمحترم کی تحریرات کا بغور مطالعہ کیا ، ناکارہ کوایسا محسوس ہوا کہ آپ صورتِ مسئلہ کوسمجھ ہی نہیں سکے ہیں، اس لیے کہ’’ ایگریمینٹ ٹوسیل ‘‘کا مطلب ہی ’’وعدۂ بیع‘‘ ہے ، اور بیع کا کاروبار کرنے والوں سے تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ مبیع بائع کی ملک سے نہیں نکلی،تو ظاہر سی بات ہے یہ’’ بیع موقوف‘‘ کی طرح ہوگیا، ایجاب وقبول ہوا ہی نہیں،جیسا کہ ’’ بیع فضولی‘‘ لہذا اس صورت کو ’’بیع تام‘‘ پر قیاس کرنے کے بجائے ’’ بیع فضولی‘‘ پر قیاس کیا جانا چاہیے، نتیجۃً صورتِ مذکورہ میںبیعِ عقارقبل القبض درست ہے یا نہیں؟ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہذا ما ظہر لی واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔ (حذیفہ وستانوی) محترم ومکرم حضرت مولانا مفتی محمد صالح صاحب مد ظلہ العالی، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! بعد سلام مسنون! امید کہ مزاجِ گرامی بخیرہوں گے، احقر العباد کے مضمون’’ دور حاضر کی بعض ناجائز تجارتی صورتیں‘‘ میں پہلی صورت پر آپ مدظلہ العالی کوجوخلجان ہوا، اس کا باعث یہ بنا کہ آں محترم بیع عقار کی اس صورت کو بیع تام قرار دے رہے ہیں، جب کہ بندہ نے جو صورت قلمبند کی ہے، وہ بیع کی نہیں، بلکہ محض وعدۂ بیع کی ہے، جس کی تکمیل کے معاہدہ کو اسٹامپ پیپر(Stamp Paper) کے ذریعہ مؤکد کیاجاتا ہے، تاکہ اگر فریقین میں سے کوئی ایک اپنے اس وعدے سے مکر جائے تو اس اسٹامپ پیپر کی بنیاد پر عدالت میں مقدمہ دائر کرکے اس سے یہ وعدہ زبردستی پورا کرایا جاسکے، جس کی بعض فقہاء کرام نے اجازت دی ہے، حقیقی بیع تواسی وقت ہوتی ہے، جب سودے کی تکمیل کے لیے مقررہ مدت پوری