ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
دوسری تحریر کا جواب : مفتی موصوف کی اس دوسری تحریر کے موصول ہونے پر پھر بندے کی طرف سے یہ تحریر ارسال کی گئی: {مولانا صالح صاحب کو اس بار بھی میں یہی کہوں گا کہ وہ مضمون میں مذکورہ صورتِ مسئلہ کو خالی الذہن ہوکر مکمل غور وخوض کے ساتھ پڑھیں، کیوں کہ مسئلہ میں موصوف کوجو التباس ہورہا ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ موصوف ،زمین کا کاروبار کرنے والوں سے ہماری اس تحقیق کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، جس کے مطابق وعدۂ بیع کی اس صورت میں تاجروں کے بیان اور عرف میں مبیع بائع کی ملک سے نکل کر مشتری کی ملک میں داخل نہیں ہوتی، تو ظاہر سی بات ہے کہ ایجاب وقبول اور بیع تعاطی وغیرہ تفصیلات کو بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں، الحمد للہ ہم لوگ بھی سالہا سال سے فقہ واصولِ فقہ کی کتابیں مثلاً قدوری ، ہدایہ، الأشباہ والنظائر، درمختار اور جدید معاشی نظام پر مشتمل قدیم وجدید و تحقیقات وغیرہ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، اصل منشأ اختلاف پر موصوف روشنی نہ ڈال کر،اپنے طور پر صورتِ مسئلہ کو سمجھ کر، اس پر دلائل قائم کررہے ہیں ، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بالکل یکسو ہوکر اپنے ذہن میں موجود صورتِ مفروضہ سے ہٹ کر ، اصولِ شرع کو سامنے رکھ کراور مزاجِ شریعت کو پرکھ کر،صورتِ مسئلہ کی نوک وپلک کا پوری دقتِ نظر اور امانت ودیانت داری کے ساتھ مطالعہ کرنے کی زحمت گواراکریں،امید ہے خلجان دور ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ، نیز یہ بات بھی موصوف کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ ماضی قریب میں پورا عالم جس کساد بازاری اور مالی بحران کا شکار ہوا تھا ، اس کی وجوہات میں ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ متعاقدین محض وعدۂ بیع کی بنیاد پر،تکمیلِ بیع سے پہلے ہی مبیع فریقِ ثالث کو، اور وہ فریقِ رابع کو، اور وہ فریقِ خامس کونفع در نفع فروخت کرتا رہا،(ہلم جرا)، جب کہ پہلے مرحلہ میں جو بیع کے وعدے کیے گئے تھے ، وہ پایۂ تکمیل کو ہی نہیں پہنچے تھے ، اور نہ مبیع اپنی اصل مالیت سے ذرا بھی آگے بڑھی تھی،بالخصوص دبئی اسی صورتِ حال کی وجہ سے جس مالی بحران کا شکار ہوا ، تین سال گذر گئے ، مگر پوری کوشش کے باوجود آج تک وہ اس بحران سے نہیں نکل سکا،