ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
(موجودہ دور میں زمین کی خرید وفروخت) موجودہ دور میں زمین ومکانات کی بیع کی صورت عام طور سے یہ ہوتی ہے کہ بائع ومشتری آپسی رضامندی سے ایک قیمت پر متفق ہوجاتے ہیں، اور ایجاب وقبول کرلیا جاتا ہے، اور قیمت مقررہ میں سے ایک معتد بہ حصہ بطور قسط اول کے مشتری بائع کے حوالہ کردیتا ہے، اور بقیہ رقم کی ادائیگی کے لیے وقت طے کرلیا جاتا ہے، بائع زمین کے کاغذات مشتری کے حوالہ کردیتاہے اور مقررہ وقت پر بقیہ رقم کی ادائیگی کے ساتھ ہی زمین کا بیع نامہ مشتری کے نام کردیا جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات مشتری جس کا مقصد ہی زمین کی خرید سے تجارت ہوتی ہے، اپنا خرچہ کم کرنے کے لیے اور نفع کی مقدار میں اضافہ کے خاطر اپنے نام بیع نامہ کرانے کے بجائے براہِ راست کسی تھرڈ پارٹی کے نام بیع نامہ کرادیتا ہے، تو اس طرح سے زمین کا ادھار خریدنا اور بیچنا شرعاً ناجائز نہیں ہے، چنانچہ کتبِ فقہ میں لکھا ہے کہ جس طرح کسی چیز کا نقد خریدنا ناجائز ہے، ادھار خریدنا بھی جائز ہے، اور اس میں زمین اور غیر زمین میں کوئی فرق نہیں اور نہ ہی حضراتِ فقہاء کرام نے کوئی ایسی تفصیل کی ہے کہ جس سے زمین کا ادھار خریدنا ناجائز معلوم ہوتا ہو،(ویجوز البیع بثمن حال ومؤجل إذا کان الأجل معلوماً )لإطلاق قولہ تعالیٰ: وأحل اللہ البیع ، وما بثمن مؤجل بیع وفی صحیح البخاری عن عائشۃ رضی اللہ عنہا اشتری رسول اللہ ﷺ طعاماً من یہودی إلی أجل ورہنہ درعاً لہ من حدید وفی لفظ الصحیحین طعاماً بنسیئۃ الخ(ہدایہ مع فتح القدیر:۶/۲۴۲، بیروت) (ویجوز البیع بثمن حال ومؤجل) وفی بعض النسخ أو مؤجل وعلیہ إجماع العلماء لإطلاق قولہ تعالیٰ: وأحل اللہ البیع ، لأنہ لم یفصل بین ثمن حال ومؤجل الخ ۔ (ہدایہ مع شرح البنایۃ:۸/۱۶) چنانچہ علامہ سرخسی فرماتے ہیں :ز مین میں تصرف کے لیے صرف ثبوتِ ملک کافی ہے اس کا قبضہ اور ضمان میں آنا ضروری نہیں اور دلیل یہ ہے