ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
مذکورہ فتوے کا دفعیہ : دار العلوم دیوبند کے اس فتوے میں بیعانہ کی دو شکلیں ذکر کی گئیں: (۱)وہ بیعانہ جو وعدۂ بیع اور بیع کے وثوق کے لیے دیا جاتا ہے ، جس میں بیع تام نہیں ہوتی ، اور نہ زمین بائع کی ملکیت سے نکلتی ہے اور نہ مشتری کی ملک میں داخل ہوتی ہے، لہٰذا اس صورت میں مشتری کو آگے فروخت کرنا درست نہیںہوتا۔ (۲) بائع ومشتری زمین کی خرید وفروخت پر راضی ہوجائیں اور زمین کی تعیین بھی ہوجائے، اس کے بعد مشتری ثمن کا کچھ حصہ بائع کے حوالہ کردے، اورکچھ ادھار کردے، تو ایسی صورت میں بیع تام ہوجاتی ہے، اور بیع کے احکام نافذ ہوجاتے ہیں ، یعنی مبیع بائع کی ملک سے نکل کر مشتری کی ملک میں چلی جاتی ہے، اور بائع ثمن کا مالک ہوجاتا ہے۔ بندے نے اپنے مضمون میں بیع عقار کی جو صورت تحریر کی اس کا تعلق اول الذکر بیعانہ سے ہے، جس میں بیع تام نہیں ہوتی اور نہ زمین بائع کی ملکیت سے نکلتی ہے، اور نہ مشتری کی ملک میں داخل ہوتی ہے(جیسا کہ صورتِ بیع عقار کے اس حصہ سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، جسے مولانا عبد اللہ خالد نے اپنے ماہنامہ میں حذف کردیا)، لہٰذا بیع کی اس صورت میں مشتری کو آگے فروخت کرنا درست نہیں۔ نیز زمین کا کاروبار کرنے والوں سے، ٹوکن دے کر اس طرح کے معاملہ کے متعلق دریافت کیاگیا ، تو سب نے یہی کہا کہ محض ٹوکن کی صورت میں یہ جو معاملہ ہوتا ہے ،وہ قطعی عقد نہیں ہوتا بلکہ اس کی حقیقت محض ایک معاہدہ کی ہوتی ہے ، جسے بائع اور مشتری مدت پوری ہونے پر قانونی طور پرپورا کرنے کے مکلف وپابند ہوتے ہیں، اسی لیے