ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
بیع عقار کے سلسلے میں دار العلوم کراچی کا مفصل فتویٰ زمین کے خرید وفروخت کی مروجہ صورت سے متعلق ایک استفتاء اور شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کا جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! کیا فرماتے ہیں علماء کرام درجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں ، کہ آج کل زمین ومکان کی خرید وفروخت میں کچھ چیزیں عام طور پر رائج ہیں؛ (۱) خریدار بیچنے والے کو کچھ پیسے بیعانہ کے طور پر دے کر سودا پکا کرلیتا ہے (کیا یہ بیع ’’بیع العربون‘‘ ہے) اور مدت متعینہ پر باقی قیمت ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے، اسی دوران وہ اسی مکان وزمین کو نفع لے کر کسی اور کو فروخت کردیتا ہے، تو کیا اس طرح پوری قیمت ادا کرنے سے پہلے خریدار کا اس چیز کو نفع لے کر بیچنا جائز ہے، حالانکہ اس دوران اگر کوئی اس زمین ومکان پر غاصبانہ قبضہ کرلے یا حکومت کی طرف سے کوئی پریشانی لاحق ہوجائے تو اس کا ضمان بیچنے والے کو پہونچتا ہے، تو کیا خریدار کے لئے غیر مضمون چیز کا نفع لینا جائز ہے؟ (۲) بسا اوقات کوئی فلیٹ یا شاپنگ سینٹر میں فلیٹ یا دوکان بک کراتے ہیں، اور رقم قسط وار دینا طے ہوتی ہے، اسی دوران کہ ابھی تعمیر جاری ہے، قیمتوں کے بڑھ جانے پر وہ اسے نفع لے کر کسی اور کو یا خود بنانے والے کو بیچ دیتے ہیںتو کیا اس طریقے سے بیچنا جائز ہے؟ (۳) ابن الھمام نے اپنی شرح فتح القدیر میں ’’باب بیع العقار‘‘ میں لکھا ہے کہ