ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
کی صورت میں بھی پائی جاتی ہیں، اس لیے انہیں ذکر کیا گیا،بندہ آپ سے دریافت کرتا ہے کہ: غررِ انفساخ عقد اور ربح ما لم یضمن کیا صرف بیع اشیاء منقولہ قبل القبض کے عدم جواز کی علت ہے؟ اور محض وعدۂ بیع کی صورت میں تکمیلِ بیع سے پہلے تھرڈ پارٹی کے ہاتھوں بیع کرنے میں غرر انفساخ عقد اور بح ما لم یضمن کا تحقق نہیں ہوتا؟شرعاً بیع کسے کہتے ہیں؟ بیعِ شرعی وہ ہے جس میں قطعی ایجاب وقبول کے نتیجے میں بائع کے لیے ثمن پر ،اور مشتری کے لیے مبیع پر ملکیت ثابت ہوتی ہے،اگر ثمن نقد ہے، تو نقدثمن پر بائع کی ملکیت ثابت ہوتی ہے، اور اگر ادھار ہو تو اس ثمن پر شریعت بائع کی ملک تسلیم کرکے اس کو مشتری کے ذمہ دین قرار دیتی ہے، اس طرح کی بیع میں ہی متعاقدین بدلین کے مالک ہوا کرتے ہیں، پھر ثبوتِ ملک کے لیے کن چیزوں میں قبضہ شرط ہے اور کن چیزوں میں نہیں؟ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے، جو فقہ کی کتابوں میں فقہاء کرام کی اختلافِ آراء کے ساتھ موجود ہے۔ (ہدایہ:۳/۵۸، کتاب البیوع، الموسوعۃ الفقہیۃ: ۳۰/۱۹۲) بندے نے جوصورت تحریر کی وہ بیع کی نہیں ، محض وعدۂ بیع کی ہے، اور وعدۂ بیع میں چوں کہ نہ ثمن پر بائع کی ملک ثابت ہوتی ہے، اور نہ مبیع پر مشتری کی، تو اسے تھرڈ پارٹی کے ہاتھوں فروخت کرنا کیا غرر اور دھوکہ نہیں ہے؟ اور بیع کی یہ صورت’’ ربح مالم یضمن‘‘ میں داخل نہیں ہوگی؟ جب کہ راقم نے زمین کا کاربار کر نے والوں سے براہِ راست بیع کی اس صورت کی تحقیق کی، جس پر انہوں نے اسے وعدہ ٔ بیع ہی قرار دیا، نہ کہ بیع تام،اور اس بات سے